Topics

عجیب تکلیف ۔اونچی آواز نہین سن سکتی

سوال: میری چار بیٹیاں ہیں۔ سب سے بڑی بیٹی کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ اس کی عمر 21سال ہے۔ پچھلے پانچ چھ سالوں سے کسی قسم کی رگڑ کی آواز سے شدید تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ فرش پر جھاڑو پھیرنے کی آواز، جوتے گھسیٹنے کی آواز نیز کتاب کے ورق الٹنے اور کاپی پر پنسل سے لکھنے کے جو احساسات ہوتے ہیں۔ ان سے بچی کے دانتوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ بچی رونا شروع کر دیتی ہے اور چیخ چیخ کر کہنے لگتی ہے کہ فلاں کو منع کریں۔ فرش پر پڑے کاغذ کو کوئی جوتے یا پاؤں سے گھسیٹ دے تو آفت آ جاتی ہے۔

بچی زیادہ تر کانوں میں انگلیاں دیئے رکھتی ہے۔ ادھر جمعدارنی گھر میں داخل ہوتی ہے اور ادھر بچی بھی تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

 جھاڑو کے بارے میں صرف سوچنے سے یا فرش پر پڑی ہوئی مٹی دیکھنے سے بھی شدید تکلیف ہو جاتی ہے۔

دانتوں کے ڈاکٹر کو دکھایا۔ ان کی دوائیوں سے کچھ فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے کہا کہ بچی دودھ زیادہ پیئے۔ مگر وہ بمشکل ایک آدھ گلاس ہی پیتی ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ہم نے اتنا حساس مریض کبھی نہیں دیکھا۔ اس قسم کی تکلیف بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے مگر اتنی شدید نہیں۔

ہومیوپیتھک دوائیاں بھی کھلائیں۔ ڈاکٹر نے کہا یہ کوئی بیماری نہیں۔ بچی کو یہ آوازیں سننے اور برداشت کرنے کو کہیں۔ وہ ان سے دور نہ بھاگے۔ مگر بچی کو اگر مجبور کریں کہ فرش پر جھاڑو کی آواز کو سنے یا دور نہ بھاگے تو وہ HYSTERICہو جاتی ہے۔ شدید تکلیف میں مبتلا ہو کر رونا شروع کر دیتی ہے۔ چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ جب وہ اس قسم کی آوازیں پیدا کرتی ہیں تو گھر میں عجیب ہنگامہ اور لڑائی جھگڑے کا طوفان سا مچ جاتا ہے۔ میں گھبرا کر بعض اوقات بڑی بچی کو ڈانٹ دیتی ہوں۔ پھر بعد میں افسوس ہوتا ہے۔ 

چھوٹے بچوں کو سمجھانا مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ بڑی بیٹی سب کو ہر وقت یہ کہتی ہے کہ پاؤں اٹھا کر چلو۔ فرش پر نہ گھسیٹو۔

بچی قرآن مجید کو بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتی۔ کہتی ہے کہ میرے دانتوں کو ہوا لگتی ہے۔ منہ ہی منہ میں تلاوت کرتی ہے۔ جب وہ چھوٹی تھی تو مجھے کچھ یاد نہیں کہ اس نے کوئی ایسی شکایت کی ہو۔ مگر چھ سات سال کی عمر سے یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا گیا۔ بچی کے والد اس کو باقاعدگی سے ورزش کرنے اور زیادہ دودھ پینے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ کوئی بیماری نہیں مگر میں ہر وقت بچی کی کیفیت نوٹ کرتی ہوں اور سخت پریشان ہوں کہ نجانے اس کے جسم میں کس چیز کی کمی ہے۔ جہاں تک ہو سکتا ہے صبح کے وقت بچی سے ورزش کرواتی ہوں مگر میری اور بھی ذمہ داریاں ہیں۔

بابا جی! روحانی ڈائجسٹ کی باقاعدہ خریدار ہوں۔ آپ کی مصروفیات سے بخوبی واقف ہوں۔ مگر خدارا میرے خط کا جواب ضرور دیں اور مشورے سے نوازیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بیٹی کا معاملہ ہے۔ اگر یہ کیفیت ختم نہ ہوئی تو اس کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔

جواب: بچی کو رات کو سوتے وقت نہایت ہلکی موسیقی سنائیں۔ جب ہلکی موسیقی کی عادت ہو جائے تو سر ذرا اونچے کر دیں اور بتدریج سر اونچے کرتے رہیں اور آواز بھاری کر دیں۔ تین وقت ایک ایک چمچہ چینی کے اوپر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم دم کر کے کھلائیں۔ 


Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔