Topics

موت کا انتظار

سوال: ریڈیو اور ٹی وی سے جو گانے سنتا ہوں تو میرے کانوں میں ان کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ اگر کوئی ناول یاکتاب پڑھ لوں تو یہ جاننے کے باوجود کہ یہ سب مفروضہ کہانیاں ہیں، میرا دل اداس ہو جاتا ہے اور اس کے کردار میری سوچوں کا محور بن جاتے ہیں۔

موت کا خوف میرے دل میں اس طرح چھایا ہے کہ دنیا کی ہر چیز پڑھائی، کھیل اور کوئی کام مجھے بے کار نظر آتا ہے۔ موت کی خبر سن کر میرا دل دہل جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسی حالت ہوتی ہے کہ میرا رواں رواں کانپنے لگتا ہے۔ خواب میں بھی اکثر خود کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ دل چاہتا ہے کہ کہیں ایسی جگہ چلا جاؤں کہاں کوئی نہ ہو مگر دنیا میں ایسی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ کسی عزیز یا اجنبی شخص کے پاس جاتا ہوں توصحیح طریقہ سے بات نہیں کر سکتا۔ روحانی اقدار سے انحراف کرنے لگا ہوں۔ اگر کوئی وظیفہ کروں تو میرے دل میں وسوسہ آتا ہے کہ مجھے اس وظیفہ میں کامیابی نہیں ہو گی اور ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ بچپن کی چند غلطیاں جن کی وجہ سے میری زندگی اجیرن ہو گئی ہے، ان کا علم میرے گھر والوں کو اور دوستوں عزیزوں کو بھی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ خود بھی یہ بات بھول جاؤں اور جن کو بھی اس بات کا علم ہے وہ بھی بھول جائیں۔ صحت خراب ہو گئی ہے، رنگ سیاہ ہوتا جا رہا ہے۔ جسم دوشیزاؤں کی طرح نرم و گداز ہے۔

جواب: میاں صاحبزادے! یہ سب اس لئے ہے کہ آپ اپنی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں سے برباد کر رہے ہیں۔ چراغ کی روشنی اس کے اندر تیل کی وجہ سے ہے۔ تیل نہیں ہو گا تو چراغ کی روشنی بھی گل ہو جائے گی۔ آدمی بھی ایک روشن چراغ ہے جب تک اس کے اندر انرجی موجود رہتی ہے، جس مقدار میں موجود رہتی ہے، یہ روشن رہتا ہے اور جب انرجی کم ہوتی ہے تو چراغ ٹمٹمانے لگتا ہے اور بالآخر چراغ بجھ جاتا ہے۔ آپ کا علاج میرے پاس یا کسی حکیم ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے۔ آپ خود اپنے معالج ہیں۔ ’’جو کچھ کر رہے ہیں۔‘‘چھوڑ دیجئے۔ آہستہ آہستہ صحت بحال ہو جائے گی۔ اعصابی کمزوری دور ہو جائے گی۔ پھر کانوں میں آوازیں بھی معمول کے مطابق آئیں گی۔ مطالعہ کے بعد تاثرات میں اعتدال پیدا ہو جائے گا اور اگر آپ اپنے لئے خود ہی کچھ نہیں کر سکتے تو پھر موت تو بہرحال آپ کے انتظار میں دامن پھیلائے کھڑی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دوا کی ضرورت نہیں ہے، خود ارادی کو کام میں لانے کی ضرورت ہے اور یہی مسئلہ کا حل ہے۔


Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔