Topics

احتیاطی تدابیر۔ اولاد نہیں ہوتی

سوال: مجھے اندھیرے سے خوف آتا ہے۔ رات کو تنہا نہیں رہ سکتی۔ اکیلے کمرے میں سو نہیں سکتی۔ اگر فرض کریں شوہر کو کہیں باہر جانا پڑ جائے تو میرے لئے مسئلہ ہو جاتا ہے۔ جب تک پورا گھر جاگ رہا ہو اس وقت میری آنکھ لگ گئی تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے پتہ چل جائے کہ صرف میں جاگ رہی ہوں اور تمام گھر سویا ہوا ہے تو میں ساری رات نہیں سو سکتی یا تو کسی نند وغیرہ کو اپنے ساتھ جگاؤں یا پھر ساری رات خود جاگوں اور ڈروں۔ اب تو اللہ کا فضل ہے۔ پہلے رات کو سوتے وقت ڈر بھی لگتا تھا اور جسم پر دباؤ محسوس ہوتا تھا۔ اگر کوئی فوراً اٹھا دے تو ٹھیک ہے ورنہ منہ سے بے ہنگم سی آوازیں نکلتی ہیں۔ اگر کوئی نہ اٹھائے تو اپنی ہی آواز سے آنکھ تو کھل جاتی ہے لیکن کمزوری اور دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔خواب بہت زیادہ نظر آتے ہیں اور خواب یاد بھی رہتے ہیں۔ خوابوں کی ایک الگ دنیا نظر آتی ہے۔ خواب میں ہرے بھرے خوبصورت باغ اور پھول دیکھتی ہوں۔ کبھی ویران اور سنسان راستوں پر دوڑتی ہوں۔ کبھی دیکھتی ہوں کہ میرے جوتے کھو گئے ہیں۔ ایک بات میں نے یہ بھی نوٹ کی ہے کہ اگر خواب میں کوئی شادی ہال یا باغ یا کوئی جگہ دیکھوں یا ہسپتال دیکھوں تو ماہ دو ماہ بعد یا سالوں بعد ویسی ہی جگہ دیکھ لیتی ہوں۔

میں بہت محنتی ہوں۔ بی اے کیا ہوا ہے لیکن چالاک ہوشیار نہیں ہوں۔ اسی لئے لوگوں سے دھوکا کھا جاتی ہوں۔ اللہ کاکرم ہے شادی شدہ ہوں۔ لیکن بچہ پیدا ہوتے ہی مر گیا۔ اس کی ذمہ دار میں اپنی والدہ کو قرار دیتی ہوں کہ انہوں نے بچے سے متعلق کوئی بات تفصیل سے مجھے نہیں بتائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حمل کے دوران میں ضروری احتیاط نہیں کر سکی۔ خوب کام کرتی رہی۔ وزن اٹھاتی رہی۔ شروع مہینے میں میرا نام کسی ہسپتال میں نہ لکھوایا، نہ ہی میں نے اپنی بے وقوفی کی وجہ سے زور دیا۔ ماں کی طرح ساس نے بھی لاپرواہی کی۔ پہلا بچہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ جب ساتویں ماہ میں نے لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے کہا گلوکوز چڑھے گا۔ یہ معاملہ بھی ٹل گیا۔ گلوکوز نہیں لگا۔ آٹھویں ماہ جب میں روٹیاں پکا کر اٹھی تو میری طبیعت خراب ہو گئی۔ بار بار باتھ روم جانا پڑا۔ ساری رات یہی ہوتا رہا۔ کوئی ہسپتال لے کر نہ گیا۔ صبح کو نند نے جو کہ شادی شدہ ہے، اپنی والدہ سے کہا۔ بھابی بار بار باتھ روم جا رہی ہے ایسا تو ڈیلیوری سے پہلے ہوتا ہے۔ پتہ چلا کہ مجھے باتھ روم جانے کی بجائے بیڈ روم یا لیبر روم میں ہونا چاہئے تھا۔ قصہ مختصر آٹھویں ماہ میں پانچ پونڈ سے زیادہ کا خوبصورت مگر مردہ بچہ پیدا ہوا۔ سب سے آخری اور بڑا ستم جو کہ میری والدہ اور ساس نے کیا یہ تھا کہ مجھے اپنے بچے کی شکل بھی نہ دکھائی کہ میں کہیں زیادہ اثر نہ لے بیٹھوں۔ اب اس بات کو آٹھ برس بیت چکے ہیں۔ اس کے بعد سے میں امید سے نہیں ہوں۔ عیدیں آتی ہیں، بقر ہ عیدیں آتی ہیں۔ میرے عزیز رشتے دار سب اپنے اپنے بچوں کو تیار کرتے ہیں اور میں ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے اپنا غم دل میں چھپائے ہنستی رہتی ہوں۔ پھر ان کے طنزیہ جملے بھی سنتی ہوں کہ ہاں بھئی ہمارے بچے ہمیں یوں تنگ کرتے ہیں اور اس کو آرام ہے کہ اس کے بچے نہیں یا پھر ارے بھئی کب خوشخبری سنا رہی ہو۔ ہماری شادی بھی تمہارے ساتھ ہوئی تھی۔ دیکھو ماشاء اللہ چھ بچے ہیں۔

مجھے خواب نظر آتا ہے کہ میرے پاس دودھ ہے اور وہ دودھ زمین پر گر کر بہہ گیا ہے۔ کوئی وظیفہ بتا دیں۔ اللہ آپ کا بھلا کرے۔

جواب: ہم آپ کے خط کا کافی بڑا حصہ اس لئے شائع کر رہے ہیں تا کہ والدین اور سسرال والے اپنی اولاد کو احتیاطی تدابیر بتانے کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اگر حمل کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو بچہ ضائع نہیں ہوتا۔ اب اولاد نہ ہونے کی وجہ سے خواب کے نقوش کی روشنی میں صرف کمزوری ہے۔ دونوں میاں بیوی کمزوری کا علاج کرائیں۔ روحانی علاج یہ ہے کہ سورہ علق کی ابتدائی دو آیتیں رات کو 300بار پڑھ کر پانی پر دم کر کے دونوں میاں بیوی پئیں۔ جامنی رنگ شعاعوں کا تیل شوہر کمر کے جوڑ پر اور نیلی شعاعوں کا تیل بیوی کمر کے جوڑ پر جو کولہوں کے درمیان ہوتا ہے، دائروں میں مالش کریں۔ جمعرات یا جمعہ کو سوا پانچ روپے مقصد پورا ہونے تک صدقہ کریں۔


Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔