Topics

تصویر۔ناراض شوہر

سوال: شوہر لندن کی رنگین فضاؤں میں گم ہو گیا ہے اور انہیں میرا کوئی خیال نہیں رہا۔ اس کے علاوہ نشے کی بری عادت سے مجبور ہو کر مارکٹائی سے بھی باز نہیں آتا۔ آپ نے ازراہ خلوص و ہمدردی میرے لئے یہ علاج تجویز کیا کہ اپنے شوہر کی ایک بڑی تصویر بنا کر کمرے میں پیروں کے رخ دیوار پر الٹی لٹکا دیں۔ میں نے یہاں ایک بہت اچھے آرٹسٹ سے اپنے شوہر کی بہت خوبصورت رنگین تصویر بنوائی اور عمدہ قسم کے فریم میں لگوا کر حسب ہدایت تصویر کو الٹا لٹکا دیا۔ یہ تصویر میرے اور شوہر کے درمیان ضد بحث کا ایک موضوع بن گئی۔ شوہر نے مجھ سے قطعاً لاپرواہی اختیار کر لی اور بات چیت بند کر دی۔ ہوتا یہ تھا کہ شوہر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوتے تصویر کو سیدھا کر دیتے اور وہ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلتے میں تصویر کو الٹا کر دیتی۔ اس خاموش لڑائی یا ذہنی کش مکش نے یہ رخ اختیار کیا کہ شوہر نے اپنا سرہانہ پیروں کی طرف کر لیا تا کہ لیٹتے وقت انہیں تصویر نظر نہ آئے۔ میں نے تصویر اتار کر دوسری طرف لٹکا دی جہاں لازماً ان کی نظر پڑے۔ یہ سلسلہ اکیس روز تک یوں ہی چلتا رہا۔ بالآخر ایک دن انہوں نے مجھ سے از خود بات کی۔ اکیس روز کے عرصے میں ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ یہ تھے۔

’’میں بہت تھک گیا ہوں، ٹوٹ گیا ہوں، اگر ہم دونوں ذہنی طور پر ہم آہنگ نہیں ہوئے تو میں بکھر جاؤں گا۔‘‘

یہ الفاظ کچھ اس طرح ادا کئے گئے کہ میرا دل بھر آیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ تصویر کا الٹ پھیر جاری رہا۔ چونکہ آپ نے مجھے ہدایت کر دی تھی کہ شوہر کتنا ہی احتجاج کریں تصویر کو سیدھا نہ ہونے دیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ شوہر گھر میں وقت کی پابندی کے ساتھ آ جاتے ہیں۔ پینا پلانا بھی انہوں نے بہت کم کر دیا ہے۔ لیکن ابھی تک وہ پوری طرح میری طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ ویسے میری ضروریات کاکافی حد تک خیال کرنے لگے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ میں ابھی تصویر الٹنے کا عمل جاری رکھوں؟

جواب: تصویر الٹنے کا عمل جاری رکھیں لیکن اس میں یہ تبدیلی کر لیں کہ جب آپ کے شوہر سو جائیں، تصویر الٹی کر دیں اور ان کے بیدار ہونے سے پہلے تصویر کو سیدھا کر دیں۔ گیارہ روز یہ عمل کرنے کے بعد تصویر کو اس کمرے سے الگ کر دیں اور تصویر کی جگہ اپنی اور اپنے شوہر کی تصویر لٹکا دیں۔ اتاری ہوئی تصویر کو سمندر میں ڈال دیں۔


Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔