Topics

دو بیویاں ایک شوہر

سوال: ہم چھ بہنیں ہیں اور ہمارا ایک بھائی ہے جو مجھ سے چھوٹا ہے۔ میری سوتیلی ماں کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ وہ بہت سفاک خاتون ہیں۔ وہ ہمارے والد صاحب کی ہر وقت نگرانی کرتی رہتی ہیں۔ تا کہ وہ اکیلے میں ہم سے کوئی بات نہ کر سکیں۔ نہ ہی وہ انہیں اچھی طرح سے ہماری کفالت کرنے دیتی ہیں اور نہ ہی ہماری والدہ سے کوئی بات کرنے دیتی ہیں۔ میری والدہ اپنے شوہر اور شوہر کی دوسری بیوی کی بھی خدمت کرتی ہیں۔ پھر بھی وہ ہر بات اور ہر کام میں نقص نکالتی ہیں۔ والد صاحب بھی انہیں کچھ نہیں کہتے۔ بلکہ الٹا ہمیں ہی ڈانٹتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔ وہ اپنی دوسری بیوی کی جھوٹی باتوں پر بھی یقین کر لیتے ہیں۔ جبکہ ہماری سچی باتیں انہیں جھوٹ لگتی ہیں۔ میری والدہ ان کی ہر بات پر چپ رہتی ہیں۔ کبھی اپنی سوکن کو کسی بھی بات پر جواب نہیں دیا۔ ہم سب بہن بھائی بفضل خدا بہت شریف اور تمیزدار ہیں۔ کبھی ان سے کوئی بدتمیزی نہیں کی لیکن پھر بھی وہ والدہ صاحبہ کو کہتی رہتی ہیں کہ تم نے اپنی بیٹیوں کی ٹھیک طرح سے تربیت نہیں کی۔ میری والدہ صاحبہ کا کوئی قصور نہیں ہوتا پھر بھی انہیں ڈانٹ پڑتی ہے اور جب بھی ہم بہنوں کا کہیں سے بھی اچھا رشتہ آتا ہے تو سوتیلی والدہ انکار کر دیتی ہیں۔ والدصاحب اپنی دوسری بیوی کے بھڑکانے میں آکر کہتے ہیں کہ تم لوگ اس کی عزت نہیں کرتیں۔ اس لئے تم میری شفقت سے محروم ہو۔ حالانکہ ہم بھی ان کی اپنی اولاد ہیں۔ ہماری ماں بھی ان کی بیوی ہیں۔ ضرورت کی چیزیں ہمیں بھی دیں۔ ہم سب سے بھی اچھا سلوک کریں۔ دوسری بیوی کی باتوں میں نہ آئیں۔ ان کو یعنی دوسری بیوی کو ان کے لئے بنائے گئے گھر میں رکھیں اور جب ہمارے گھر آئیں تو اکیلے آئیں۔ ان کے رعب میں نہ رہیں اور ہمارے ساتھ انصاف سے پیش آئیں۔ پلیز آپ میرے اس مسئلے پر ضرور غور کیجئے گا کیونکہ میں نے یہ تفصیل جو آپ کو لکھی ہے ہمارے حالات اس سے بھی سنگین ہیں۔ کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ ہمارے مندرجہ بالا مسائل حل ہو جائیں اور والد صاحب کی دوسری بیوی ہماری باتوں میں دخل اندازی نہ کریں۔

جواب: رات کو سوتے وقت آپ کی والدہ صاحبہ 41بار سورہ اخلاص پڑھ کر بات کئے بغیر بستر میں چلی جائیں اور اپنے شوہر کا تصور کرتے کرتے سو جائیں۔ یہ عمل تین ماہ تک کریں۔ ہر جمعرات کو پانچ روپے خیرات کریں۔ چلتے پھرتے یا حی یا قیوم کا ورد کریں۔ 


Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔