Topics

ترتیب و پیشکش


دو سو سال پہلے زمین پر اتنی ترقی نہیں تھی جتنی ترقی آج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ زمانہ سائنسی ترقی اور شعور کے عروج کا زمانہ ہے۔ لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اس ترقی اور عروج کے زمانے میں %98آبادی ذہنی خلفشار، عدم تحفظ اور بے سکون ہے۔ سائنسی عروج اور ترقی کا یہ کیسا بھیانک پہلو ہے کہ ڈگریاں ہوتے ہوئے بھی لوگوں کو ملازمت نہیں ملتی۔ مزدور کو پیٹ بھر کر روٹی میسر نہیں آتی۔ بیماریوں کا حال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں جگہ نہیں ملتی۔

اب سے ساٹھ سال پہلے وسائل اتنے نہیں تھے۔ جس قدر آج ہیں، جس آدمی کے پاس سو روپیہ ہوتے تھے وہ ساہو کار کہلاتا تھا لیکن فی الوقت گھروں میں آرام و آسائش کے ایسے ایسے سامان موجود ہیں جن کا ہمارے بڑوں نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا ہو گا۔

اس کے باوجود ہر آدمی پریشان اور حواس باختہ نظر آتا ہے۔ یہ بات اس طرف راہنمائی کرتی ہے کہ دنیاوی مال و متا ع اور افراط زر سے سکون آشنا زندگی کا تعلق نہیں ہے۔ اگر روپے پیسے کی بہتات اور سونے کے ذخیرے سے سکون و عافیت حاصل ہوتی تو  فی الواقعہ موجود سائنسی ترقی کا دور آرام و سکون کا دور ہوتا۔

دو سو سال پہلے کے عرصہ میں کیا کچھ ہوا اور کس کس طرح ایک مخصوص گروہ نے ترقی کے نام پر فریب دے کر اللہ کی مخلوق کو پریشان کیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ اس بات سے کوئی ایک فرد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ ترقی کی چکا چوند نے انسانی زندگی کو جنت سے نکل کر دوزخ کا ایندھن بنا دیا ہے۔ اس کے پس پردہ جو عوامل کام کر رہے ہیں وہ انسان نے غیر حقیقی باتوں کو Materialismاپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے اور حقیقت پر سے اس کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ مادیت یا Matterکا ہر ذرہ فنا کے دوش پر زندہ ہے اور جو چیز فانی ہے اس میں تغیر و تبدل کااور انحطاط کا ہونا ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عیار اور چالاک دو فیصد لوگوں نے %98لوگوں کو اپنے لئے منفعت(فائدہ) کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہ دو فیصد لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

’’وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کرتے۔ ان کے لئے عذاب عظیم کی بشارت ہے۔‘‘
چونکہ میں بندہ بشر میاں مشتاق احمد عظیمی بھی 98فیصد لوگوں کے گروہ کا ایک فرد ہوں۔ اس لئے میں نے اپنی برادری کے لئے کوشش کی کہ خوشی ، اطمینان قلب اور سکون سے آشنا ہوں۔ اس کے لئے پہلے میں نے اللہ کی مخلوق کی خدمت کے جذبے سے مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے روحانی ڈاک کے عنوان سے تین جلدیں شائع کر چکا ہوں۔

میں نے اللہ کی مخلوق سے اور اپنے بہن بھائیوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں انشاء اللہ مرشد کریم الشیخ(خواجہ شمس الدین عظیمی) کی تحریر کردہ روحانی ڈاک کی چوتھی جلد بھی پیش کروں گا۔ مجھے اللہ نے توفیق دی اور یہ چوتھی جلد آپ کے سامنے ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد اور متفق ہونے کی توفیق دے۔ آپ سب بہن بھائیوں سے مودبانہ التماس ہے کہ آپ گھر گھر، محلہ محلہ، قریہ قریہ، شہر شہر اپنے ملک اور غیر ممالک میں اس بات کی کوشش کریں کہ مسلمانوں میں تفرقہ بازی ختم ہو جائے کیونکہ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لئے کوئی راہ نجات نہیں۔

دعاگو
میاں مشتاق احمد عظیمی

روحانی فرزند

خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

مراقبہ ہال158۔ مین بازار مزنگ لاہور




Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔