Topics
سوال: نامراد زندگی کے اکھڑے سانوں کے ساتھ ایک بے ربط تحریر آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں۔ میں ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ حافظ قرآن ہوں۔ کئی وظیفے بھی پڑھے۔ آنسوؤں کا دریا بھی رواں ہے۔ مگر گناہوں کی دلدل میں دھنستا ہی چلا گیا۔ زندگی میں کوئی خوشی نہیں دیکھی۔ والدین ضعیف ہیں۔ ان کا کوئی ارمان اور خواہش پوری نہ کر سکا۔ دنیا میں دل نہیں لگتا۔ میں اپنی زندگی میں ناکامیاں اور مایوسیاں دیکھ دیکھ کر تنگ آ گیا ہوں۔ کیا میں یہ مذہب چھوڑ دوں جس سے سوائے غم کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس مذہب نے مجھے کیا دیا ہے۔ صرف تکلیفیں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹھیک دو ماہ بعد اپنا مسلک چھوڑ دوں گا۔ دو ماہ کی مدت اس لئے مقرر کی ہے کہ شاید میرے حالات درست ہو جائیں۔ شاید اس مدت میں خدا کو مجھ پر رحم آ جائے۔
جواب: خدا نے آپ کو کیا دیا ہے اور کیا نہیں دیا ہے۔ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اگر خدا آپ پر فرض کر دیتا کہ آپ رات دن میں جتنے سانس لیتے ہیں ان سب کا شمار کریں تو شاید یہ آپ ہرگز نہ کہتے کہ خدا نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔ آپ کے اندر کام کرنے والا نظام اس وقت کام آتا ہے جب آپ دن میں ایک ہزار نفل ادا کرتے، پانی کی پیاس ایک گلاس پینے سے نہیں بلکہ ایک مٹکا پینے سے بجھتی، نیند کے لئے ضروری ہوتا کہ آپ ایک گھنٹہ الٹے لٹکے رہتے۔ آپ کے لئے زمین اتنی سخت کر دی جاتی کہ آپ ایک قدم چلتے اور ہر قدم پر ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گر پڑتے۔ اس وقت آپ کو پتہ چلتا کہ خدا نے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے۔ خدا نے کتنی نعمتیں آپ کو بلا مشقت عطا کی ہیں جہاں تک مسلک چھوڑنے کا تعلق ہے۔ اگر ساری کائنات خدا کی خدائی سے منحرف ہو جائے تو اس کی خدائی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اگر پوری کائنات اس کی حمد و ثناء کرنے لگے تب خدا کی خدائی میں اضافہ نہیں ہو جائے گا۔ آپ جس مسلک کو بھی اختیار کریں گے۔ وہاں آپ کو واسطہ خدا ہی سے پڑے گا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی بندہ خدا کو خدا کہتا ہے، کوئی پرماتما کوئی ایل کہتا ہے۔ کوئی بھگوان اور کوئی گاڈ کہتا ہے۔ پانی کو پانی کہا جائے یا واٹر یا کسی اور نام سے پکارا جائے پانی، پانی ہی رہے گا۔ یہ جو ایک گروہ خدا کا منکر ہے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ کائنات کا کنٹرول نیچر کے ہاتھ میں ہے۔
مسلک تبدیل کرنے سے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا سمجھ بوجھ سے کام لیں۔ آدمیوں کی طرح زندہ رہیں اور آدمیوں کی طرح زندگی کے مسائل حل کریں۔ انشاء اللہ کامیابی ہو گی۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔