Spiritual Healing
سوال: نامراد زندگی کے اکھڑے سانسوں کے ساتھ اک بے ربط سی تحریر آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں۔ میں ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ بچپن سے جوانی تک حیا کو اپنا اصول بنائے رکھا۔ قرآن شریف بھی ختم کیا اور کچھ سورتیں چھے کلمے بھی یاد کئے۔ کئی وظیفے بھی پڑھے۔ آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بھی رواں ہوا۔ مگر گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ میں نے زندگی میں کوئی خوشی نہیں دیکھی۔ والدین ضیعف العمر ہیں ان کا کوئی ارمان پورا نہ ہو سکا۔ اٹھارہ سال سے وہ کونسی رات ہے جو میں نے سکون سے گزاری ہو، والدین سے کہہ نہیں سکتا کہ میری شادی کر دیں کہ میں مرض گناہ میں مبتلا ہوں۔ اس جہا ن ِخراب سے اب دل ٹوٹ گیا ہے اور کسی چیز میں دل نہیں لگتا۔ کیا میں یہ مذہب چھوڑ دوں جس سے سوائے غم کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس مذہب میں کون ہے جو کہ سچے دل سے کسی کے لئے دعا کرے گا یا کون ہے جو کسی کو نیکی کی طرف لائے گا چنانچہ اب سال کے آخری دو ماہ رہ گئے ہیں۔ اس کے بعد میں اپنا مسلک چھوڑنے پر مجبور ہوں، شائد اتنی مدت میں خدا کو مجھ پر رحم آ جائے یا کوئی میری خوشی کے لئے دل سے دعا کر دے۔ شائد مسلمانوں میں سے کوئی مجھے فرزندی میں قبول کر لے۔ میں یہ تحریر آپ کو نہ لکھتا مگر نہ جانے کونسی قوت ہے جو مجھے لکھنے پر مجبور کر رہی ہے کہ خواجہ صاحب کو ضرور لکھو۔ خدا جانے کیا راز ہے حالانکہ مجھے آپ سے مایوسی کے سوا اورکیا حاصل ہو گا۔ تکلیف تو ہر ایک دے سکتا ہے مگر فیض کون دیتا ہے۔ اس فریب ہستی میں کوئی کسی کو نہیں جانتا۔
جواب: خدا نے آپ کو کیا دیا ہے اور کیا نہیں دیا ہے۔ یہ بات آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اگر خدا آپ کے اوپر یہ فرض کر دیتا کہ آپ دن رات میں جتنے سانس لیتے ہیں ان کا شمار کریں۔ یعنی سانس گن کر لیں تو شائد آپ یہ ہرگز نہ کہتے کہ خدا نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔ آپ کے اندر کام کرنے والا نظام اس وقت کام کرتا جب آپ دن میں ایک ہزار نفل ادا کرتے۔ پانی کی پیاس ایک گلاس میں نہیں ایک مٹکا پانی پینے سے بجھتی۔ نیند کے لئے ضروری ہوتا کہ آپ ایک گھنٹے تک الٹے لٹکے رہتے۔ آپ کے لئے زمین اتنی سخت کر دی جاتی کہ آپ اس کے اوپر چلتے تو ہر قدم پر ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرتے۔ اس وقت آپ کو پتہ چلتا کہ خدا نے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے۔ اور خدا نے کتنی نعمتیں بلا مشقت آپ کو عطا کی ہیں۔ جہاں تک مسلک چھوڑنے کا تعلق ہے اگر ساری دنیا، خدا کی خدائی سے منحرف ہو جائے تو اس کی خدائی میں کوئی کمی نہیں آ جائے گی۔ جس مسلک کو بھی اختیار کریں گے وہاں بھی آپ کو خدا سے ہی واسطہ پڑے گا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی بندہ خدا کو خدا کہتا ہے۔ کوئی پرماتما، کوئی ایل کہتا ہے کوئی بھگوان اور کوئی گاڈ کہتا ہے، پانی کو پانی کہا جائے یا واٹر یا کسی اور نام سے پکارا جائے، پانی پانی ہی رہے گا۔ یہ جو ایک گروہ خدا کا منکر ہے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ کنٹرول نیچر کے ہاتھ میں ہے۔
مسلک تبدیل کرنے سے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ خرد اور ہوشمندی آپ کے کام آئے گی۔ آدمیوں کی طرح زندہ رہیں۔
آدمیوں کی طرح زندگی کے مسائل حل کریں۔ کامیابی یقینی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔