Topics
کائنات کی ابتدا
ارادہ سے ہوئی اور ارادہ کائنات میں خیال کی ابتدا ہے۔ خیال میں وہ سب موجود ہے جو
کائنات میں ہے۔ آدمی ایجادات کے لئے پہلے سے موجود ”وسائل “ سے مدد لیتا ہے۔ وسائل
کو محض مادی اشیاء سے منسوب کیا جاتا ہے جب کہ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لئے
بنیادی وسیلہ خیال کا وارد ہونا ہے۔ سننا، دیکھنا، سمجھنا، بولنا، کھانا پینا،
چلنا پھرنا، سونا جاگنا، لکھنا پڑھنا غور کرنا۔۔۔۔۔ خیال کے تحت ہے۔ خیال پر عمل
کو فرد جب اپنے ارادہ سے منسوب کرتا ہے تو مسائل شروع ہو تے ہیں۔ مسائل کی بنیادی
وجہ یہ ہے کہ ذہن رک گیا ہے۔
ہر فرد اور شے
کو خیال کے سبب تحریک مل رہی ہے۔ زندگی تین دائروں میں گزرتی ہے۔
۱۔فزکس ۲۔سائیکالوجی ۳۔پیراسائیکالوجی
فزکس۔۔۔۔وسائل
کی دنیا ہے۔ فرد وسائل استعمال کرتے ہوئے جن کیفیات و تجربات سے گزرتا ہے وہ سائیکالوجی
ہے۔ وسائل اور ان کی طرف متوجہ ہونے کا خیال جہاں سے آرہا ہے وہ علم پیرا
سائیکالوجی ہے۔
اب آپ پڑھیں گے
کہ فرد اگر شے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو شے کی خصوصیات منتقل ہوتی ہیں جیسے کہ مٹی
۔ اس کے برعکس فرد خیال کے سورس،خیال کی تحریکات اور خیال کے نظام پر ذہن مرکوز کر
دے تو ذہن شکوک و شبہات اور ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہو جائے گا۔
زندگی کیا
ہے۔۔۔؟ دانش ور اب تک زندگی کی حتمی تعریف بیان نہیں کرسکے۔ ہر ایک کی رائے مختلف
ہے کیوں کہ ہر ایک کا مزاج مختلف ہے۔ کسی نے کچھ کہا تو کسی نے کچھ۔ البتہ ان
تعریفوں میں جو پہلو مشترک رہا وہ زندگی کا مشکل یا پیچیدہ ہونا ہے۔ تقریباً سب نے
مختلف الفاظ میں اس نکتہ کو واضح کیا۔ یہ تعریف نہیں، درحقیقت عکاسی ہے کہ زندگی
کو سمجھا نہیں گیا اس لئے مشکل یا پیچیدہ کہہ دیا گیا۔ بنیادی وجہ آدمی کی نفسیات ہے
اور نفسیات کا دارومدار خواہشات پر ہے۔
علمائے باطن اگر مگر ، کاش، غیر واضح
اور شاید جیسے الفاظ میں نہیں الجھتے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ باطن کا وقوف رکھتے ہیں۔ وہ
فرماتے ہیں کہ زندگی خیال کے اور خیال۔۔۔۔ امر الٰہی کے تابع ہے۔
” اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے
کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ 'ہو' اور وہ ہو جاتی ہے۔“ (یس:82)
یہ زندگی کی تعریف ہے۔
کائنات میں جہاں بھی حرکت ہے وہاں
زندگی ہے۔ روح جسم سے منقطع ہوتی ہے تو جسم کو فوراً ڈیڈ باڈی کا نام دے دیا جاتا
ہے۔ یہاں تک کہ جس جسم کو لوگ زید یا حامد کے نام سے پکارتے تھے اب اس کو دیکھ کر
کہتے ہیں کہ یہ ڈیڈ بادی ہے۔ ماحول کی تبدیلی سے آدمی کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ بات
آدمی کی ہو رہی ہے، انسان کی نہیں۔ حقیقت جاننے والا روح کی جسم میں موجودگی اور
غیر موجودگی۔۔۔دونوں میں جسم کو ڈیڈ بادی سمجھتا ہے۔ ایک نفسیات یہ بھی ہے اور یہ
ایسی نفسیات ہے جس میں تغیر نہیں ہے کیوں کہ
اس سوچ کا تعلق مابعد النفسیات سے ہے۔باطنی وجود سے واقف فرد جانتا ہے کہ
حرکت مٹی یا روشنی کے جسم میں نہیں، کہیں اور سے آ رہی ہے۔
مسائل کی بنیادی وجہ جسم کو حرکت کا محرک سمجھنا ہے جس سے معاملات
پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ یہ بات قبول کرنا کہ حرکت کا محرک جسم ہے
دراصل جسم کے خواص کو قبول کرنا ہے پھر ذہن ان خواص کی مناسبت سے کام کرتا ہے ۔
جیسے،
۱۔ جسم بجنی، کھنکھناتی مٹی اور سڑاند سے بنا ہے
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں۔
” پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس
چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔“ (الطارق :
۵۔۶)
” کیا انسان دیکھتا نہیں ہے ہم نے اسے
نطفہ سے پیدا کیا۔“ (یس: ۷۷)
جسم آدمی کا ہو یا کتے بلی کا۔۔۔
تخلیق اسپرم سے ہوتی ہے۔ اسپرم سڑاند ہوا بدبودار پانی ہے۔ یہ پانی ان غذاؤں سے
بنتا ہے جو ہم کھاتے ہیں۔ غذا کا سورس گوشت ہو، سبزیاں یا پھل۔۔ سب کا تعلق زمین
سے ہے۔ عالم ناسوت میں زمین کی خاصیت ہے کہ اس میں سے جو شے پیدا ہوتی ہے اس میں
سڑاند اور بدبو ہے۔ تعفن کا تعلق شک سے بھی ہے۔ آدمی مثبت اور منفی میں ردوبدل
ہوتا رہتا ہے اور بیش تر وقت شک میں گزارتا ہے، یہ عمل سوچ کو متعفن کر کے خون میں
شامل ہو جاتا ہے ۔ سڑاند اور بدبو کا مطلب تغیر ہے۔
۲۔جسم کی ایک
خصوصیت تغیر ہے:
سڑاند دراصل ٹوٹ پھوٹ اور تغیر کو
ظاہر کرتا ہے کہ جسم میں تعفن سے پہلے بھی ایک حالت تھی۔ اس حالت میں تبدیلی ہوئی
اور جسم سڑ گیا یعنی پہلی حالت پر قائم نہیں رہا۔ تعفن کی ایک وجہ ثقل ہے۔
۳۔ جسم میں ثقل
ہے:
ثقل کا تعلق مٹھاس اور نمک سے ہے۔ ایک
میں چپک زیادہ اور دوسر ی میں کم ہے۔ چپک فرد کو ماحول سے نکلنے نہیں دیتی اور ذہن
کو بھاری کر دیتی ہے۔ذہن بھاری ہونے سے رفتار کم ہو کر بالآخر جمود بن جاتی ہے۔
۴۔ جسم کی ایک
خصوصیت جمود ہے:
جمود کے معنی ”انا“ یعنی خول میں بند
رہنا ہے۔ نئے نئے خیالات اور خیالات میں نئی نئی دنیاؤں کو قبول نہ کرنے سے فرد
خول (الوژن) میں مزید بند ہو جاتا ہے۔
مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر جسم کے
چند خواص بیان کئے گئے ہیں۔ بتانا یہ ہے کہ جسم کی طرف متوجہ ہونے سے یہ سب چیزیں
سوچ میں شامل ہو جاتی ہیں۔تعفن، تغیر، ثقل، جمود، خول میں بند رہنا وغیرہ جیسی
منفی صفات میں پھنس کر سوچ پیچیدہ اور فرد امراض کا شکار ہو کر بیماریوں کے لئے
لقمۂ تر بن جاتا ہے۔
بیماری کی ابتدا منفی سوچ سے ہوتی ہے
جس کی وجہ سے ذہن منتشر ہو جاتا ہے اور خیالات میں تغیر پیدا ہوتا ہے طرح طرح کی
بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ عموماً بیماریوں کا علاج دوائیوں سے کیا جاتا ہے مگر
بعض بیماریاں ایسی ہیں کہ دوائیاں بے اثر ہو جاتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ بیماری کی
تشخیص صحیح نہیں ہوئی۔
باطنی علوم کے ماہرین فرد کو ذہنی اور
جسمانی امراض سے نکالنے کے لئے توجہ تبدیل کرتے ہیں ذہن جب منفی سوچ پر رکتا ہے تو
خیالات کثیف ہو جاتے ہیں۔ علمائے باطن سوچ کا رخ بدل کر فرد کو قدرت کی نشانیوں کی
طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات انتشار، شک، خوف اور بے یقینی سے
پاک ہے۔ غیر متغیر ہستی کی طرف متوجہ ہونے سے فرد تغیر سے دور ہوتا ہے اور صحت
یابی کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔
روایت ہے کہ ایک بار محمود غزنوی بیمار
ہو گیا۔ بیماری نے طوالت اختیار کی اور ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی۔مملکت کے معروف
طبیب اپنی کوشش کر چکے اور ناکامی پر تشویش میں مبتلا تھے۔ بادشاہ صحت یاب نہ ہو
سکا۔ بالآخر ایک روز محل میں دانا طبیب آیا۔ اس نے بادشاہ کو دیکھ کر وزرا سے کہا طول
و عرض میں اعلان کر دیا جائے کہ محمود غزنوی صحت یاب ہو گیا ہے۔وزرا حیران ہوئے
لیکن طبیب کے مشورہ پہ عمل کیا۔ اعلان ہوا کہ مبارک ہو بادشاہ محمود غزنوی اب رو
بہ صحت ہیں۔ شادیانے بجائے گئے اور خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ رعایا نے خوشی
کا اظہار کیا۔
البتہ اسی مملکت کے ایک حصہ میں ایک
ساتھ بیٹھے چند عاملوں کے کان میں جب یہ خبر پڑی تو ان کا رتکاز ٹوٹ گیا۔ صحت یابی
کا سن کر عاملوں کے ذہن میں شک پیدا ہوا جس سے عمل کی تاثیر ختم ہو گئی۔
دراصل عاملوں نے
ارتکاز کے علم کو استعمال کرتے ہوئے محمود غزنوی کا ماورائی طور پر اطلاع دینا
شروع کی کہ وہ بیمار ہے۔ محمود کا ذہن
چونکہ یقین سے واقف نہیں تھا اس لئے اس کے
لاشعور نے اس اطلاع کو قبول کیا اور بیمار ہو گیا۔ ہر زبان پر ایک ہی بات تھی کہ
بادشاہ بیمار ہے۔ علالت کی خبر کی تکرار ہونے سے بیماری نے طول پکڑ لی اور کوئی
دوا کارگر نہ ہوئی۔ بالآخر ایک دانا نے سب سے پہلے تکرار کو توڑا کہ بادشاہ بیمار
ہے۔ اب ہر طرف صحت یابی کی تکرار ہو گئی۔
قانون: ارادہ کی تکرار سے شے مظہر بنتی ہے۔
زندگی کی ابتدا خیال سے ہوتی ہے اور
خیال کے علم کا تعلق پیرا سائیکا لوجی ہے۔ چوں کہ یک سوئی اور انتشار سے آدمی صحت
مند یا بیمار ہوتا ہے اسی لئے پیراسائیکالوجی
میں علاج کے لئے مسئلہ کی بنیاد کو تلاش کر کے مریض کی توجہ تبدیل کی جاتی
ہے۔اس وقت دنیا میں مایوسی عام ہے۔ نیند کی ادویات یا ذہن کو سست کرنے کی دوائیاں
استعمال کرنے سے مریض ٹھیک نہیں ہوتا۔ وقتی طور پر مریض پر نیند غالب آجاتی ہے اور
مریض مغلوب ہو جاتا ہے لیکن بیدار ہونے کے بعد مرض بھی بیدار ہو جاتا ہے۔
طویل المدت علاج یہ ہے کو سوچنے کے
زاویہ کو تبدیل کریں۔ زاویہ تبدیل ہونے سے مایوسی ختم ہوگی۔
ایک سادھو خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ
علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ گیان دھیان سے اس مقام پر پہنچ گیا تھا جہاں گوشت
پوست کا جسم مٹی نظر آتا ہے۔ جب نظر میں مٹی کے ذرّات تحلیل ہوتے ہیں تو آدمی کے
اوپر ایک اور جسم نظر آتا ہے جیسے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر متحرک تصویر۔ یہی وہ
آدمی ہے جو نسمہ کا ہیولی ٰکہلاتا ہے۔سادھو نے
خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کی طرف گہری نظر ڈالی اس کی نیم وا آنکھیں
ان پر جم گئیں اور وہ برملا پکار اٹھا۔” پر بھو ، دھن دھن قدرت تیری! جے جے ایشور
کی کرپا ہے۔ اے خواجہ! تیری آتما روشن ہے لیکن دل میں سیاہ دھبا ہے۔“
سلطان الہند رحمتہ اللہ علیہ نے
فرمایا، ” تو سچ کہتا ہے۔“
سادھو یہ سن کر
حیرت سے بولا ۔” چاند کی طرح روشن آتما پر یہ دھبا اچھا نہیں لگتا۔ کیا میری شکتی
سے یہ دھبا دور ہو سکتا ہے؟“
خواجہ غریب نواز
رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا، ” ہاں تو چاہے تو یہ سیاہی دھل سکتی ہے۔“ سادھو کے
اوپر اضطرابی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس نے نم آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں سے کہا،” میری
زندگی آپ کی نذر ہے۔“
خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے
فرمایا،” اگر تو اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان لے آئے تو یہ دھبا ختم ہو جائے
گا۔“
سادھو کی سمجھ میں بات آئی نہیں لیکن
چوں کہ اس کے اندر کی مٹی کی کثافت دھل چکی تھی اس لئے حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لے آیا۔
آپ نے فرمایا ،” آتما کی آنکھ سے
دوبارہ دیکھ ۔“
سادھو نے دیکھا
تو روشن روشن دل سیاہ دھبے سے پاک تھا۔سادھو
نے سلطان الہند رحمتہ اللہ علیہ کے آگے ہاتھ جوڑ کر بنتی کی، ” انہونی سے پردہ
اٹھائیے ورنہ میرا دم گھٹ جائے گا۔“ خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا،
”سُن! وہ روشن آدمی جس کے سینہ پر تو
نے سیاہ رنگ کا دھبا دیکھا تھا تُو خود تھا لیکن اتنی شکتی کے بعد بھی تجھے اپنا
ادراک نہیں ہوا۔ ادراک یہ ہے کہ آدمی کا دل آئینہ ہوتا ہے اور ہر دوسرے آدمی کے آئینہ
میں اسے اپنا عکس نظر آ آئینہ آتا ہے۔ تو نے اپنی روشن آتما میرے اندر دیکھی تو تجھے اپنا عکس نظر آیا
۔ تیرا ایمان توحید پر نہیں تھا اس لئے تیرے دل پر سیاہ دھبا تھا اور جب تو نے
کلمہ پڑھ لیا، سیاہ دھبا دھل گیا اور تجھے میرے آئینہ پر اپنا عکس روشن اور منور
نظر آیا ۔“
حضرت معین الدین چشتی المعروف خواجہ
غریب نواز نے سادھو کا نقص دور کرنے کے لئے اس کی فکر کی سمت تبدیل کی کہ جو نقص
تمہیں میرے اندر نظر آرہا ہے وہ میرا نہیں تمہارا عکس ہے لہذا اپنے اندر دیکھو اس
طرح سادھو کے دل کا آئینہ صیقل ہو گیا۔
صاحب علم لدنی حضرت نانا تاج الدین کے ایک شاگرد فرید الدین کریم بابا واقعہ
بیان کرتے ہیں۔
” جھانسی سے ایک صوفی صاحب بابا تاج
الدین رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کے لئے شکردرہ آئے۔صوفی صاحب کا قیام میرےسا
تھ تھا اور ہم دونوں میں ہر وقت تصوف اور روحانیت
پر گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دن میں نے شاہ صاحب سے پوچھا، کیا کوئی آسان طریقہ ہے کہ
مجھ میں ایسی صلاحیت پیدا ہو جائے کہ عرفان کی منزل تیزی سے عبور کر لوں۔ شاہ صاحب
نے ایک عمل بتایا اور کہا کہ عمل قبرستان میں کرو۔ جذبہ شوق سے مغلوب قبرستان جا کر عمل کرنے لگا۔ تیسرے روز عمل میں مشغول
تھا کہ محسوس ہوا بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خفگی میں ڈوبی آواز پکار رہی ہے۔ آنکھیں
کھول کر چاروں طرف دیکھا۔ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ دکھائی نہ دیئے۔ دوبارہ عمل
میں مصروف ہو گیا۔ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی غصہ بھری آواز ائی گویا منع فرما
رہے ہوں۔ میں اٹھا اور ان کی نشست گاہ کا رخ کیا۔ رات کے تین بجے تھے دیکھتے ہی
فرمایا، ” کیوں رے ! کون بولا بڑے بڑے پہاڑاں کھودنے کو۔ یہ ماچس لے!“
ماچس پکڑاتے ہوئے فرمایا، ” کاہے کو
ادھر اُدھر ڈھونڈتا ہے۔“ پھر آپ نے کچھ الفاظ ادا کئے جو سمجھ میں نہ آئے۔ دل میں
عرض کیا، ” حضور میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ نے کیا فرمایا ہے۔“
خیال آتے ہی بابا صاحب رحمتہ اللہ
علیہ نے طمانچہ مارا اور فرمایا، ”ذہن چراتا ہے!“
انہوں نے وہاں موجود ایک شخص کے کندھے
سے شال لے کر پلو میرے ہاتھ میں دیا اور دوسرا خود پکڑ کر فرمایا،” بچھا! یہ ہے
دکان۔“
فرید الدین کریم بابا فرماتے ہیں کہ
جب بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے ماچس دی تو ذہن میں یہ بات آئی کہ جس طرح
ماچس کی تیلی میں شعلہ نور چھپا ہوا ہے اسی طرح اللہ کا نور میرے اندر موجود ہے۔
اللہ کو رگ جاں سے قریب ہونے کے باوجود
ادھر ادھر دھونڈنا اور خود سے الگ سمجھنا
لا حاصل ہے۔ جب انسان خود کو پہچان لیتا ہے تو اس ہستی کا عرفان حاصل کر لیتا ہے
جس نے خود کو متعارف کروانے کے لئے کائنات کو وجود کا لباس پہنایا ہے۔
غور طلب لفظ ” ذہن چرانا ؛ ہے۔ جو
پورے واقعہ پر محیط ہے۔ ذہن چرانے کا مطلب اپنا ذہن استعمال کرنا ہے یعنی فطرت کے
برخلاف عمل۔ بابا کریم نے نا سمجھی میں مرشد کے ہوتے ہوئے دوسرے سے رجوع کیا۔ جب
کہ مرشد شاگرد کی افتاد طبع سے واقف ہوتا ہے اور اسی کے مطابق تربیت کرتا ہے۔
بابا تاج الدین رحمتہ اللہ علیہ نے ان
کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا، ”ذہن چراتا ہے!“
سبق یہ ہے کہ اصل سے ذہن ہٹ جائے تو نقصان ہوتا ہے۔ غلطی کا ادراک ہونے سے مرشد کی بات کا مفہوم ذہن میں کھل گیا۔ مابعد النفسیات یا روحانیت کا علم بندہ کو اصل سے رجوع کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
Parapsychology se masil ka hal
خواجہ شمس الدین عظیمی
معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔