Topics

علم مابعد النفسیات میں جاننے کی دو طرزیں ہیں۔


خود پر تفکر کیا جائے تو پہلا سوال سامنے آتا ہے کہ میں کون ہوں۔۔۔۔ کہاں سے آیا ہوں۔۔۔جہاں سے آیا ہوں، وہاں کیا ہے۔۔۔ وہاں سے یہاں آنے کا محرک کیا بنا۔۔۔میں وہاں کس حال میں تھا۔۔۔جس نے تخلیق کیا وہ مجھے نظر کیوں نہیں آتا۔ میرے اندر کا میکانزم کیسے کام کرتا ہے۔۔۔ میں اطلاع قبول کرنے والا کیا میں ہی ہوں۔۔۔ کیا میں اندر میں اور باہر ایک ہوں۔۔۔ اگر ایک ہوں تو ایک فرد کے دو رخوں کا سبب کیا ہے اور ان دونوںمیں سے کون ہوں۔۔۔جب میں سوتا ہوں تو میرا جسم بیڈ پر ہوتا ہے اور میں آسمانی دنیا میں ہوتا ہوں۔ جسم کیا ہے اور آسمانی دنیا میں کون ہے۔۔۔؟

علم مابعد النفسیات میں جاننے کی دو طرزیں ہیں۔

٭ ایک طرز یہ ہے کہ روحانی استاد تصرف سے شاگرد کو اس قابل بنادیتا ہے کہ وہ تجربات کرے۔ایسے شاگرد کی حیثیت ان معنوں میں کم زور ہوتی ہے کہ اگر تجربہ غلط ہو جائے تو شاگرد بے بس ہو جاتا ہے۔

٭ علم جن قوانین اور فارمولوں پر قائم ہے، اگر مرشد مرید کو فارمولوں کا علم اور علم میں تصرف کرنا سکھا دے تو مرید کے اندر تسخیر کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے۔

            خالق کائنات فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لئے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ، سب مسخر کر دیا۔

            قرآن میں تسخیر کے عمل کا تذکرہ دو طرزوں میں ہے۔

۱۔ایک طرز میں آدمی میں اچھائی اور بُرائی کا تصور کسی نہ کسی طرح اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے۔

۲۔دوسری طرز یہ ہے کہ آدمی کے ذہن میں اپنی ذات نہیں رہتی، وہ اپنی نفی کر دیتا ہے اور اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کے اس قانون کو سمجھ لیتا ہے جس کو ”مشیت“ کہا گیا ہے۔

مشیت کیا ہے۔۔۔؟ حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور حضرت خضر علیہ اسلام کے واقعہ میں اس کا تذکرہ ہے۔

            ”اور وہاں انہوں نے ہمارے بندہ میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے علم لدنی عطا کیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا،کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تا کہ آپ مجھے بھی اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟ اس نے جواب دیا، آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ اور جس  چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اس پر بھی صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس نے کہا ، اچھا۔ اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں۔ اب وہ دونوں روانہ ہوئے یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ اس شخص نے کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، آپ نے اس کا تختہ اکھاڑ دیا تا کہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں۔ یہ تو آپ نے سخت حرکت کی۔ اس نے کہا ، میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیئے۔ میرے معاملے میں سختی سے کام نہ لیں۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اس شخص نے اسے قتل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام  نے کہا، آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالاں کہ اس نے کسی کا خون نہیں کیا تھا۔ یہ کام آپ نے بہت بُرا کیا۔ اس نے کہا، میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اس کے بعد اگر میں کچھ پوچھوں تو مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا۔ پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی۔ اس شخص نے اس دیوار کو بنا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔ اس نے کہا، بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہیں کر سکے۔ کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں۔ کیوں کہ آگے ایک بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا تو اس کے والدین مومن تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے انھیں تنگ کرے گا۔ اس لئے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلہ ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ  یہ یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لئے خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ اس لئے تمہارے رب نے چاہا کہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا۔ میں نے کچھ اپنے اختیار سےنہیں کیا۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔“ (الکہف ۶۵۔۸۲)

            خالق کائنات اللہ چاہتا ہے کہ

            نوع آدم اس راستہ پر چلے جو قدم بقدم چلا کر بندہ کو اللہ تک لے جاتا ہے۔ خالق اپنی مخلوق سے یہ چاہتا ہے کہ مخلوق روز ازل کے جس عہد کو بھلا چکی ہے، اس کی تجدید کرے۔۔۔خالق کی آواز سن کر، اس کی ربوبیت کا اقرار کر کے، اس سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرے۔ نوع آدم کے ذہن میں راسخ ہو جائے کہ ہمارا پیدا کرنے والا ہمارا رازق ہے، ہماری حفاظت کرتا ہے، ہمارا نگہباں ہے اور زندہ رکھنے کے لئے تمام وسائل فراہم کرتا ہے۔اتنے مربوط اور منظم انتظام کے ساتھ مخلوق کی نگہداشت اور نگہبانی کا منشا یہ ہے کہ اللہ  چاہتا ہے بندہ کے ذہن پر منکشف ہو جائے کہ اللہ نے اپنی مخلوق کو محبت کے ساتھ پیدا کیا۔ جس طرح اللہ نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا اسی طرح مخلوق بھی محبت کے ساتھ اللہ کی قربت حاصل کرے۔

            اس زمین پر زندگی کا جو رخ غالب ہے وہ فریبِ نظر ہے۔ جو ہوتا ہے وہ نظر آتا نہیں، جو نہیں ہوتا وہ نظر آجاتا ہے۔ زمین پر آنا، یہاں مختلف کرداروں میں پابند ہو کر وقت گزارنا اور پھر یہاں سے چلے جانا۔۔۔اس پروگرام کے مطابق ہے جو خالق کائنات نے زمین کے لئے متعین کیا ہے۔ آنے جانے اور مختلف کرداروں کے عمل میں حقیقت کو فراموش کر دینا فریب ہے اور یہی زمین کے طلسم کا خاصہ ہے۔ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہونے میں کسی مرحلہ پر تعطل نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ chain (زنجیر) گھوم رہی ہے جس کی کڑیاں کبھی بچپن کا روپ دھار لیتی ہیں ، کبھی جوانی کے خدوخال اختیار کر لیتی ہیں، کبھی بڑھاپے میں منتقل ہوجاتی ہیں اور کبھی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔  chain ایک ہے، کڑیاں بھی ایک ہیں لیکن ہر آن ، ہر لمحہ اور ہر کڑی ایک نئے رنگ اور روپ میں جلوہ گر ہو رہی ہے۔

            ابدال حق قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

                        ”ہر لمحہ اور ہر آن ازل ہے۔“

            کُن کی آواز ریکارڈ ہے اور کائنات میں مسلسل گونج رہی ہے۔ آدمی کے زمین پر آنے کا مطلب یہ ہے کہ جو بچہ زمین پر پیدا ہوا ، یہ اس عمل کا مظاہرہ ہے جس عمل کے نتیجہ میں آدم کو جنت سے نکالا گیا تھا۔

            ہر پیدا ہونے والا بچہ نوع آدم کا فرد ہے ۔ جب تک اس بچہ نے جنت میں نافرمانی نہیں کی۔ یہ بچہ زمین پر پیدا نہیں ہوا۔

            پیراسائیکالوجی کے علم کے تحت نافرمانی سے فرماں برداری کے زون میں واپس جانے کا طریقہ فرماں برداری ہے۔ فرماں برداری کے فارمولے سے واقف ہونے کا راستہ اطلاع کے نظام سے واقف ہونا ہے۔

            آدمی جان لے کہ وہ ایک ” فارمولا“ ہے اور یہ فارمولا ” اطلاع “ سے کھلتا ہے۔ فارمولے کے اندر وہ تخلیقی عناصر جنہوں  نے فارمولے کو زندگی بخشی ہے، متحرک ہیں۔ اس تحریک کی بدولت آدمی اندر موجود ان فارمولوں کا علم سیکھ لیتا ہے جن فارمولوں سے اس کی اپنی تخلیق ہوئی۔ اپنی تخلیق سے واقف ہونے کے بعد وہ فارمولے فرد کی آنکھوں کے سامنے اجاتے ہیں جن پر کائنات کی ساخت قائم ہے اور وہ فارمولے جن کے سبب عالمین میں زندگی جاری ہے۔


 حوالہ:۔پیراسائیکلوجی۔ اکتوبر2019۔ماہنامامہ قلندر شعور

Topics


Parapsychology se masil ka hal

خواجہ شمس الدین عظیمی


معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔