Topics
رضیہ مقسود (
اظہر کالونی) : بھائی نے والد کی جائیداد اپنے نام کروا لی۔
بہنوں کو حصہ نہیں دیا۔ اسے ہر مہینے تین لاکھ روپے کرایہ ملتا ہے۔ جھکاؤ سسرال کی
طرف ہے۔ میرے شوہر دوسرے شہر کمانے جاتے ہیں تنخواہ 21 ہزار اور مکان کرائے کا ہے۔
گھر میں نو افراد ہیں۔ گزر بسر کس طرح ہوتی ہے، اللہ جانتا ہے۔ درخواست ہے کہ
تصویر والے عمل کی اجازت دیں اور دعا کریں کہ بھائی مجھے میرا حق دے۔
جواب : آپ کا مسئلہ پڑھا۔ آپ نے دعا کے لئے لکھا ہے۔ انشاء اللہ میں عاجز بندہ فقیر دعا کروں گا۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ لباس سے مراد میرے نزدیک دو یونٹ ہیں۔ جب ازدواجی زندگی میں دو یونٹ ملتے ہیں تو ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں۔ آپ نے خط میں کروڑوں کی بات کی ہے۔ اچھی بہن! فقیر کے لئے ایک روپیہ اور کروڑ روپے ، دونوں کی اہمیت نہیں۔ اگر اہمیت ہے تو میرے خیال میں فقیری چولا نہیں پہن سکتا۔ ماشاء اللہ آپ پڑھی لکھی اور سمجھ دار ہیں۔ لین دین کا حساب کتاب جانتی ہیں لیکن پیاری بہن! آپ نے یہ نہیں سوچا کہ جب بندہ پیدا ہوتا ہے تو ساتھ ایک بالشت لنگوٹی کا کپڑا نہیں لاتا اور جب اس دنیا سے اس دنیا میں واپس جاتا ہے تو جسمانی طور پر الف ہوتا ہے۔ اب یہ نسیب کی بات ہے کہ رشتہ دار محلے والے دو گز کپڑا۔۔۔۔ کون سا کپڑا؟ کفن کا لٹھا ڈال دیں۔ ہم نے کبھی غور نہیں کیا، فکر نہیں کی، کوشش نہیں کی کہ ہم کہاں سے آتے ہیں۔ بغیر وسائل کے آتے ہیں اور دنیا میں وسائل جمع کرنے کے علاوہ ہماری کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ عجیب بات ہے کہ اُس پار دنیا سے جب آدمی اس پار دنیا میں آتا ہے تو جسم پر کپڑے نہیں ہوتے، دنیا سے جاتا ہے تو رشتے دار جسم پر موجود کپڑے اتارنے کی زحمت نہیں کرتے، قینچی سے کاٹ کر پھینک دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔ نظام یہ ہے کہ جس ہستی نے ہمیں تخلیق کیا ہے اس نے اپنے بندوں کے لئے ہر قسم کے وسائل بھی تخلیق کئے ہیں۔ ماشاء اللہ آپ پڑھی لکھی ہیں۔ آپ کے شوہر کام کرتے ہیں۔ خرچ پورا نہیں ہوتا تو آپ کوئی کاروبار شروع کر دیجیئے۔ آج آپ کام کریں گی تو وہ دن بھی آئے گا جب مرد گھر میں بیٹھیں گے اور خواتین ائیر کنڈینشنڈ کمرے میں کرسی پر بیٹھے ہوئے احکامات جاری کریں گی۔
Parapsychology se masil ka hal
خواجہ شمس الدین عظیمی
معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔