Topics

لڑکی پر جن ہیں


میری ایک لڑکی جس کی عمر ۲۲ سال ہے۔ عرصہ سے آسیب میں مبتلا ہے۔ ڈاکٹری ،یونانی اور روحانی سب ہی علاج کرا چکی ہوں مگر کوئی صورت بہتری کی نظر نہیں آتی ۔ایک مرتبہ مولوی صاحب کو بلایا گیا۔ مولوی صاحب نے کچھ پڑھ کر پھونکا اور لڑکی ٹھیک ہو گئی ۔ جیسے ہی مولوی صاحب گھر سے باہر گئے پھر دورہ پڑ گیا ۔ دوبارہ بلایا تو لڑکی نے مولوی صاحب کے منہ پر زور سے تھپڑ مار دیا۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے فلیتہ میں مرچیں بھر کر لڑکی کی ناک کے قریب جلایا جس سے لڑکی بہت چیخی چلائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹھیک ہو گئی مگر دورے اب بھی پڑتےہیں۔ عامل حضرات کا کہنا ہے کہ اس لڑکی پر کوئی زبردست جن آیا ہوا ہے ۔ جس وقت جن آتا ہے تو سارا خاندان پریشان ہو جاتا ہے ۔ جو چیز ہاتھ میں آ جاتی ہے یہ جن صاحب توڑ دیتے ہیں ۔ اس حالت میں اگر کوئی قریب چلا جاتا ہے تو اس کی اچھی مرمت ہو جاتی ہے ۔

محترم! آپ نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جنات انسانوں سے زیادہ ہمدرد ہوتے ہیں، مگر ہمارے ساتھ تو معاملہ برعکس ہے ۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی ایک دم خاموش ہو جاتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی گہری سوچ میں ہے، پھر خود بخود بولنے لگتی ہے ’’ مجھے وہ اپنے ساتھ لے گئے تھے وہاں ایک باغ ہے،بہت دلفریب اور خوبصورت باغ ، درخت قطار و قطار ، روشیں سلیقہ کی ، جگہ جگہ گلاب کے تختے اور بے شمار قسموں کے رنگ برنگے پھول اور حوض کے اندر موتی کی لوح ، صاف شفاف پانی اس میں جا بجا فوارے۔ جب ان فواروں سے پانی ابلتا ہے تو یہ سفید نہیں ہوتا ۔ بلکہ مختلف رنگوں کے امتراج سے قوس و قزح کی طرح پورے باغ میں پھیل جاتا ہے۔ طویر عجیب بولیاں بولتے ہیں اور اس درخت سے اس درخت پر پھدکتے پھرتے ہیں ۔ ہائے اللہ! ایسے ایسے خوبصورت پرندے ہوتے ہیں کہ ان کے پروں سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں ۔اس باغ میں پھولوں کی بہتات ہے انگور کی بیلیں، سیب کے درخت، ناشپاتی اور انار کے درخت ، یہ درخت دھلے ہوئے سانپ کی چھڑی کی طرح گول ہیں۔ جب ہوا سے ہلتے ہیں تو درختوں کے پتوں میں مختلف سازوں کی آوازیں گونجتی ہیں۔ باغ میں ایک بارہ دری ہے اس بارہ دری کے ایک گوشہ میں ایک تخت بچھا ہے اس تخت پر اس صاحب براجمان ہیں وہ مجھ سے کہتے ہیں۔ آؤ ، آؤ !ہم تم سے شادی کریں گے ۔ ہم تمہیں اپنی ملکہ بنائیں گے ۔ تم ہمارے اوپر راج کرو گی۔ تم اپنے والدین سے کہہ کیوں نہیں دیتیں کہ ہم اپنی پسند کی شادی کریں گے ۔ ‘‘  پھر وہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔

تعبیر: محترم! آپ کی لڑکی ہرگز کسی آسیب کا شکار نہیں ہے۔اور نہ ہی اسے کوئی ایسا مرض ہے کہ جس کا علاج نہ ہوسکتاہو...........مسئلہ دراصل شادی کا ہے ۔ شادی کے سلسلے میں آپ اپنی مرضی اس پر ٹھونسنا چاہتے ہیں ۔ اور یہی بات ان حالات و کیفیات کا سبب ہے۔ اس سے تو آپ بھی انکار نہیں کر سکے اب وہ زمانہ نہیں رہا جو اب سے پچیس سال پہلے تھا ۔صرف اس لئے لڑکے کو نظر انداز کر دینا کہ وہ غریب ہے اور آپ کی لڑکی کے مقابلے میں کم تعلیم یافتہ ہے ، ہرگز مناسب نہیں ہے ۔ موجودہ دور میں اس بات پر ضد کرنا کہ شادی اپنے ہی خاندان میں ہو ، یہ بھی صحیح نہیں ہے ۔ آج کل ویسے ہی لڑکیوں کی شادی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ آپ کی صاحبزادی شعوری طور پر اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ شعور پر لاشعور غالب آ جاتا ہے اور جب لاشعور کا غلبہ ہو جاتا ہے توشعوری کیفیات معطل ہو جاتی ہے ۔ شعور کے اسی تعطل سے لڑکی کے اوپر دورے پڑتے ہیں ۔ ایسی حالت میں اس کو چپ لگ جاتی ہے اور لڑکی کے لاشعور میں جو کچھ ہے وہ الفاظ کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے ۔ اگر فوراً اس کا سد باب نہ کیا گیا تو (خدانخواستہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ دماغی توازن خراب ہو جائے گا ۔ ہمارا معاشرہ ہے کہ آپ اس سلسلہ میں سنجیدگی کے ساتھ غور کریں ۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس فرض سے سبکدوش ہو جائیں اور لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے مطابق کر دیں ۔ اللہ تعالی کی طرف سے بہتری کی امید ہے۔ )

’’روحانی ڈائجسٹ ‘‘ (جنوری 86 ء)

Topics


Parapsychology se masil ka hal

خواجہ شمس الدین عظیمی


معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔