Topics
۱۔مادی (فزکس)
۲۔ ذہنی ( سائیکالوجی)
۳۔ماورائے ذہنی (پیراسائیکالوجی)
مذکورہ بالا ایکویشن کو سمجھنے کے لئے
اس طرح بیان کیا جائے گا کہ ماحول میں جو چیزیں اور عادات رائج ہیں وہ سب مادی
دائرہ میں آتی ہیں ۔ بچہ کی پیدائش ، عمر کے ادوار، کھانا پینا،سونا جاگنا، شادی
بیاہ، ایجادات و ترقی، میل ملاپ، معاشرتی و سماجی و خاندانی نظام سب مادی دائرہ
میں آتا ہے اس کو فزکس کہتے ہیں۔
دوسرا دائرہ نفسیات کا ہے کہ فرد کس
طرح سوچتا ہے اور اس کا ذہن کن طرزوں پر کام کر رہا ہے۔۔؟ جس کو ہم مزاج کہتے ہیں وہ ایک ہے لیکن بچہ،جوان
اور بوڑھے کا فرد مزاج، اسی طرح پرندوں ،
جانوروں اور حشرات کا مزاج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ خوشی،غم، سکون،بےسکونی، ہم
دردی ،بے حسی، محبت ، نفرت ، اختلاف، اتحاد۔۔۔یہ سب نفسیات کے دائرہ میں آتے ہیں۔
ان سارے عوامل کی ابتدا خیال ہے اور خیال
کہاں سے آتا ہے یہ علم پیراسائیکالوجی کہلاتا ہے۔شے موجود ہو یا نہ ہو۔۔۔ اگر اس
کی اطلاع نہ آئے تو ہمارے لئے غیر موجود ہے۔ مثال یہ سمجھ میں آتی ہے کہ آدمی کوما
میں چلا جاتا ہے یا کسی ایک خیال میں بے خیال ہو جاتا ہے۔ ایک خیال میں بے خیال
ہونے سے مراد ہے کہ خیال کی اندرونی سطح سامنے آجاتی ہے جس میں شے کے مفہوم کی
وضاحت ہے۔ آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خیال کی ابتدا وہم سے ہوتی ہے۔
واہمہ کیا ہے۔۔۔؟ واہمہ ایک ایسی
اطلاع ہے جو سورس آف لائف ہے یعنی روح۔ مقدس کتابوں کے مطابق روح کی تعریف یہ ہے
کہ روح اللہ کا امر ہے۔ کائنات ماوراء الماورا ہستی کی تخلیق ہے۔ تخلیق سے مراد یہ
ہے کہ ایک ماوارا ہستی نے جب کائنات کی تخلیق کا ارادہ کیا، ارادہ میں جو کچھ تھا
اور رہے گا وہ ظاہر ہو گیا۔
قرآن کریم میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور
بڑی سے بڑی بات کی وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
”اور نہیں نکلتا کوئی پھل اپنے غلافوں سے اور نہ حاملہ ہوتی ہے کوئی مادہ اور نہ بچہ جنتی ہے۔ اس کے علم کے بغیر۔“(حم السجدۃ :۴۷)
آیت میں زندگی کے تینوں دائروں کا
ریکارڈ ہے۔ الفاظ کو نمبر وار لکھیں تو یہ ترتیب بنتی ہے۔
۱۔غلاف اور وہ عوامل جن سے غلاف تشکیل
ہوا
۲۔ پھل۔۔۔۔پھل کا بننا اور نکلنا
۳۔مادہ ۔۔۔ حاملہ ہونا
۴۔ پیدائش کا عمل اور بچہ
۵۔ اللہ کا علم کا سارے عمل پر محیط
ہونا۔
غلاف ، پھل ، پھل کا بننا اور پھل کا
غلاف سے نکلنا۔۔مادہ، حاملہ ہونا اور بچہ جننا یہ سب فزکس ہے۔
غلاف میں ٹھنڈک یا حدت، پھل کا
مزاج یعنی مٹھاس ، کھٹاس ، ترشی، ٹھنڈک اور حدت وغیرہ۔۔۔علاوہ ازیں پھل بننے اور
مادہ کے حمل ٹھہرنے میں فرد ( پھل اور مادہ ) جن کیفیات سے گزرا وہ نفسیات ہے۔ جب
تک دو ذہن نہیں ملتے حمل نہیں ٹھہرتا۔ اسی طرح دو مقداروں میں توازن قائم نہیں
ہوتا ، وہ ایک نہیں ہوتیں۔ جب ایک نہیں ہوتیں تو ملاپ کا عمل پورا نہیں ہوتا۔ یہی
وجہ ہے کہ آدمی سے آدمی اور مقداریں ایک ہونے کی وجہ سے شیر سے شیر پیدا ہوتا ہے۔
نر اور مادہ میں کتنے ہی اختلاف کیوں نہ ہوں، جنسی ملاپ سے ایک مرحلہ پر دونوں کا
ذہن مل جاتا ہے، وہ ذہن ملنے سے تیسرا ذہن تخلیق پاتا ہے اور اس تیسرے ذہن میں
دونوں ذہنوں کے خواص منتقل ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ کو ماں باپ کی کاربن
کاپی کہا جاتا ہے۔
پھل کا غلاف میں بننا اور نکلنا،
حمل ٹھہنا اور بچہ کی پیدائش۔۔۔ اس سارے عمل پر اللہ کا علم محیط ہے۔
روحانی علوم دستاویز ہیں کہ ہم تلاش
کریں کہ انسان کی اصل کیا ہے۔ وہ کہاں سے آکر اپنے لئے جسمانی لباس تیار کرتا ہے
اور پھر اس لباس کو اتار کر کہاں چلا جاتا ہے۔ قدرت نے انسان کو اصل انسان سے
متعارف کرانے کے لئے بہت اہم اور مختصر فارمولے بنائے ہیں تا کہ نوع انسانی خود
آگاہی حاصل کر کے اپنی اصل سے واقف ہو جائے۔
”مابعد النفسیات میں طبیعات اور
نفسیات سے ہٹ کر ان ایجنسیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو کائنات کی مشترک سطح میں عمل
پیرا ہیں اور کائنات کے قوانین عمل کا احاطہ کرتی ہیں۔ نظریۂ رنگ و نور اس امر کی
وضاحت کرتا ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنے والے فارمولوں سے کہاں تک
واقف ہے۔ یہ فارمولے اس کی دسترس میں ہیں یا نہیں اور ہیں تو کس حد تک ہیں۔ انسان
کے لئے ان کی افادیت کیا ہے اور ان سے آگاہی حاصل کر کے وہ کس طرح زندگی کو خوش
گوار اور کامیاب بنا سکتا ہے۔“
کائنات کی مشترک سطح میں کام کرنے
والے عوامل پر غور کریں تو شہادت فراہم ہوتی ہے کہ زندگی اس کائنات کی ہر شے میں
متحرک ہے۔ ہر شے میں مشترک سطح کو تلاش کیا جائے تو فرد انفرادیت سے نکلتا ہے اور
اپنی اور دیگر مظاہر کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے۔ واقفیت اسے اصل سے قریب کرتی ہے۔
جب تک انسان اپنی بنیاد کی طرف رجوع نہیں کرتا، اصل سے واقف نہیں ہوتا۔
Parapsychology se masil ka hal
خواجہ شمس الدین عظیمی
معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔