Topics
سلطانہ جہاں، کراچی : وہم کا مرض ہے۔ ہر وقت فکر رہتی ہے کہ چولھا کھلا نہ رہ
گیا ہو، لاک لگا کر بار بار دیکھتی ہوں ۔اسی طرح ڈر ہوتا ہے کہ کہیں استری کا بٹن
کھلا نہ رہ گیا ہو۔ بچوں کو گھر آنے میں دیر ہوجائے تو وسوسےآنے لگتے ہیں۔ ہر بات
میں وہم ہوتا ہےکہ ایسا نہ ہوجائے ویسا نہ ہوجائے ۔ زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ میں وہم
کی مریضہ بن گئی ہوں۔ میرے ذہن میں اچھی بات کیوں نہیں آتی؟
جواب: جب ذہن حاضر دماغ نہیں ہوتا ، ادھر ادھر کے خیالات اور فضول باتوں میں
الجھا رہتا ہے تو ایسے میں توجہ فکشن خیالات پر مرکوز ہوتی ہے یعنی کام انجام دیتے
ہوئے ذہن کام میں مشغول نہیں ہوتا، کہیں اور ہوتا ہے۔ نتیجے میں انجام دیئے جانے
والے کاموں میں شبہ رہ جاتا ہے۔ جوکام کیا جائے ، حاضر ذہنی سے کیا جائے۔
قانون ہے کہ آدمی جو سوچتا ہے، وہ ہوتا ہے۔ یہ لہروں کی دنیا ہے۔ ہرتخلیق پر
لہروں کا غلاف ہے۔ ذہن سے خارج ہونے والی لہریں فضا میں تحلیل نہیں ہوتیں بلکہ
جمع ہوکر خدوخال بناتی ہیں اور ان کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ وہم اور شک اللہ سے دوری
ہے۔ ہروقت باوضو رہئے ۔ وضو سے ذہن میں مثبت لہریں دورکرتی ہیں اور پاکیزہ خیالات
کا ہجوم ہوجاتا ہے۔ روز پاؤ سپارہ ترجمے کے ساتھ قرآن کریم پڑھئے۔قرآن کریم میں شک
نہیں ہے۔ جو لوگ اس میں غور و فکر کرتے ہیں، ان کی یقین کی دنیا روشن ہوجاتی ہے۔
Parapsychology se masil ka hal
خواجہ شمس الدین عظیمی
معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔