Topics
ج۔ب ( کراچی)
میرے ذہن پر بعض لوگوں کا خوف سوار ہے۔ جب موقع ملتا ہے ، وہ میری بے عزتی کرنے سے
گریز نہیں کرتے۔ خاموشی میں بھی رویہ ہتک آمیز ہے۔ میرا ان لوگوں سے تقریباً روز
واسطہ پڑتا ہے اور سامنا ہونے پر ذہن بھاری ہو جاتا ہے۔ وہ مجھے سخت ناپسند کرتے
ہیں اور میں خود کو ان سے کم تر سمجھتا ہوں۔ خوف کا سلسلہ اتنا طویل ہو گیا ہے کہ
اب حد ہو چکی ہے۔ میں خود تنگ آگیا ہوں ۔ عظیمی صاحب! وہ میرے بارے میں جو چاہیں سوچیں،
مجھے احساسِ کمتری اور خوف سے آزاد کر دیں۔
جواب : پانچ
غبارے الگ الگ رنگ کے خریدیں اور ان میں پھونک بھریں۔ خیال رہے کہ غباروں کا حجم
یعنی سائز سب کا ایک جیسا ہو۔ انیس بیس کا فرق ہو تو کوئی حرج نہیں۔ جن لوگوں سے
خوف آتا ہے، ہر غبارے پر ان میں سے ایک نام لکھیں۔ اس طرح جتنے لوگ ہیں، سب کے نام
کے غبارے ہوں۔ اب ایک ایک کر کے غباروں کو غور سے دیکھیں۔ جس غبارے پر جس کا نام
لکھا ہے، اس غبارے میں کچھ دیر اس فرد کا سراپا دیکھیں۔ تصور قائم ہوتے ہی خود سے
پوچھیں کہ غبارے میں ہوا کس نے بھری۔۔۔؟ جب تک آپ نے غبارے میں ہوا نہیں بھری تھی
کیا وہ ویسا تھا، جیسا اب نظر آتا ہے۔۔۔؟ یقیناً جواب نہ میں ہوگا۔
اب سوئی کے ذریعے غبارے سے ہوا نکال لیں اور دیکھیں کیا ہوا۔ یہ ہے آپ کے خوف کی حقیقت! اگلے غبارے کی طرف بڑھیں۔ ایک ایک کر کے غباروں سے ہوا نکلے گی اور خوف ختم ہو جائے گا انشاء اللہ۔
Parapsychology se masil ka hal
خواجہ شمس الدین عظیمی
معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔