Topics
جناب
عظیمی صاحب
السلام
علیکم
آپ
نے ایک کالم میں تحریر کیا ہے کہ صلوٰۃ ہمارے اوپر غیب منکشف کردیتی ہے اور ہم فرشتوں
کی دنیا سے روشناس ہوجاتے ہیں اور الصلوٰۃ معراج المومنین کے مصداق صلوٰۃ میں بندہ
کا اللہ سے تعلق قائم ہوجاتا ہے یعنی بندہ غیب کی دنیا میں چلاجاتا ہے۔ برائے کرم اس
کی مزید وضاحت فرمادیں۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
صلوٰۃ اس مخصوص عبادت کا نام ہے، جس میں بندہ کا اپنے خالق
کے ساتھ براہ راست ایک تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ صلوٰۃ بندہ کو ایسی روحانی کیفیت سے آشنا
کرتی ہے جس سے بندہ اپنے ماحول میں موجود ہر چیز اور خود اپنی نفی کرکے اللہ کی حضوری
حاصل کرتا ہے۔ قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق ہر پیغمبر نے اپنی امت کو صلوٰۃ قائم کرنے
کی تعلیم دی ہے اور اس کی تاکید کی ہے۔ اس پروگرام میں بنیادی مقصد یہ رہا کہ بندے
کا اللہ سے جو رشتہ قائم ہے بندہ اس سے واقف ہوجائے۔ انبیائے کرام نے ہمیں بتایا کہ
اللہ کو پہچان لیں اور ان کا ذہنی ارتباط اللہ کے ساتھ قائم ہوجائے۔
انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک دماغ جنتی دماغ
ہے یعنی آدم کا وہ دماغ جو نافرمانی کا مرتکب نہیں ہوا تھا اور دوسرا دماغ اسفل السافلین
کا دماغ ہے جو حکم عدولی کی بنا پر وجود میں آیا۔
اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت جنت میں حضرت آدم علیہ
السلام کے اندر صرف ایک دماغ تھا۔ جس کا شیوہ فرمانبردار ہو کر زندگی گزارنا تھا اور
جب حضرت آدم علیہ السلام سہواً اپنا اختیار استعمال کرکے نافرمانی کے مرتکب ہوئے تو
اس دماغ کے ساتھ ایک دوسرا ذیلی دماغ وجود میں آگیا جو نافرمانی اور حکم عدولی کا دماغ
قرار پایا۔
جب تک آدم اور حوا جنت کے دماغ کی حدود میں زندگی گزارتے
رہے وہ ٹائم اسپیس کی قید سے آزاد رہے لیکن جب وہ شجر ممنوعہ کے قریب چلے گئے تو ان
کے اوپر ٹائم اسپیس مسلط ہوگیا یعنی آزاد دماغ قید وبند اور صعوبت میں گرفتار ہو
گیا۔ زمین میں قید ہو کر زندگی گزارنے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام نے نئے اصول و قواعد
مرتب کرلئے مثلاً بھوک و پیاس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کھیتی باڑی کا اہتمام
ور محنت و مشقت کے ساتھ انتظار کی زحمت برداشت کرنا جبکہ جنت میں حضرت آدم علیہ السلام
کے لئے انتظار نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کے حضور اپنی
غلطی کا اعتراف کیا اور عفو و درگزر کی درخواست پیش کی۔ اللہ نے ارشاد فرمایا۔
ہم اپنے بندے بھیجتے رہیں گے جو تمہیں صراط مستقیم کی ہدایت
کریں گے اور جو لوگ ان برگزیدہ پیغمبروں کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں گے ہم ان کا اصل
وطن جنت دوبارہ عطا فرمادیں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام جنت میں اللہ کے منع کرنے کے باوجود
جب ممنوع درخت پر چلے گئے (جانے کی کوئی بھی صورت ہو) تو اللہ سے وہ ربط قائم نہیں
رہا جو پہلے تھا۔ چونکہ یہ ربط (عارضی طور پر) ٹوٹ گیا تھا اس لئے جنت کے دماغ نے انہیں
رد کردیا۔
عربی کی ایک مثل ہے ”ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے“ لہٰذا
ہمیں اس دماغ کو حاصل کرنے کے لئے جو ٹائم اسپیس سے آزاد ہے وہی طریقہ اختیار کرنا
ہوگا جس طریقے سے ہم نے اس دماغ کو کھویا ہے یعنی ہم اپنے اختیار کے تحت اس دماغ کو
رد کریں جس کی حدود میں رہ کر ہم آزاد دماغ سے دور ہوگئے ہیں۔
اس ربط کو تلاش کرنا، قرآن پاک کی زبان میں قیام صلوٰۃ ہے۔
اللہ کا ارشاد ہے ”قائم کروصلوٰۃ“ یعنی اللہ کے ساتھ اپنا ربط اور تعلق قائم کرو……
ایسا ربط جو ہر حال میں قائم رہے۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اوپر نافرمانی کے بعد وجود
میں آنے والا دماغ غالب ہے اور فرمانبرداری کا دماغ مغلوب ہے۔ ہم غائب و مغلوب دماغ
میں ردوبدل ہوتے رہتے ہیں۔ قرآن پاک نے اس ردوبدل
کا تذکرہ رات اور دن کے نام سے کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو
رات میں۔ (القرآن)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا
نکالتے ہیں دن کو رات میں سے اور نکالتے ہیں رات کو دن میں
سے۔ (القرآن)
یعنی حواس ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف درجہ بندی ہوتی رہتی ہے
دن کے حواس میں زمان و مکان کی پابندی ہے لیکن رات کے حواس میں بندہ مکانیت اور زمانیت
سے آزاد ہے۔ رات کے یہی حواس ہیں جو غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور انہی حواس
سے انسان برزرخ، اعراف، ملائکہ اور ملاء اعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تذکرہ میں اللہ فرماتا ہے
اور وعدہ کیاہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا اور پورا کیا
ان کو دس سے تب پوری ہوئی مدت چالیس رات۔
اللہ فرمارہا ہے کہ چالیس رات میں تورات (غیبی انکشافات)
ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائی۔ فرمان خداوندی بہت زیادہ غور طلب ہے اللہ
نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس دن میں وعدہ پورا کیا، صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔
کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوپر رات کے حواس غالب رہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج کے بارے میں اللہ
کا ارشاد ہے، پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ
کی طرف تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کروائے۔ رات کے حواس میں (سونے کی حالت میں)
ہم نہ کھاتے ہیں، نہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی ارادتاً ذہن کو دنیوی معاملات میں استعمال
کرتے ہیں۔ قیام صلوٰۃ کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ صلوٰۃ
کی حالت میں ہمارے اوپر تقریباً وہ تمام حواس وارد ہوجاتے ہیں جن کا نام رات ہے آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ (نماز) میں وہ تمام حرکات جمع فرمادی ہیں جن حرکات و سکنات
میں انسان زندہ رہتا ہے۔
دعاگو
عظیمی
۱۷، جنوری، ۱۹۰۸ء
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔