Topics
وعلیکم
السلام
جب تصور شیخ کا مراقبہ کیا جاتا ہے تو شیخ کے اندر
کام کرنے والی لہریں دماغ میں منتقل ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور جیسے جیسے تصور میں
انہماک بڑھتا ہے اسی مناسبت سے لہروں کی منتقلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
بہت زیادہ غور طلب بات یہ
ہے کہ جب ہم مرشد کریم کا تصور کرتے ہیں ہماری نیت یہ ہوتی کہ ہمیں مرشد کریم کا
وہ علم حاصل ہوجائے جس علم سے اللہ کا عرفان نصیب ہوتا ہے۔ عمل کا دارو مدار نیت
پر ہے جب ہم اس نیت کے ساتھ تصور کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کا وہ علم حاصل ہوجائے جو
مرشد کریم کو حاصل ہے تو نتیجہ میں مرشد یا شیخ کے اندر کام کرنے والی وہ لہریں جن
سے اس نے اللہ کا عرفان حاصل کیا ہے ہمارے اندر منتقل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ابتداء
میں لہروں کی منتقلی سے ہمارے دماغ کی صفائی ہوتی ہے۔ صفائی ہونے کے بعد مرید بے
یقینی اور شک سے آزاد ہوجاتا ہے اور ذہن آیئنہ کی طرح شفاف ہوجاتا ہے۔ مسلسل ریا
ضت اور مراقبہ جات اسے اللہ کا ارشاد
تم
ہماری بصارت سے دیکھتے ہو، ہماری سماعت سے سنتے ہو اور ہمارے فواد سے سوچتے ہو۔
مشاہدہ میں آجاتا
ہے ۔ مراقبہ کرنے سے پہلے چار باتوں پر عمل ہونا ضروری ہے۔
۱۔ذہن منتشر خیالات سے آزاد ہو۔
۲۔نشست ایسی ہو جس میں جسم اور اعصاب کے اوپر
وزن محسوس نہ ہو یعنی جسم اکڑا ہوا یا سخت نہ ہو۔
۳۔ماحول خوشگوار ہو، اندھیرا ہو،
شوروغل نہ ہو اور ماحول میں گھٹن نہ ہو ، من پسند خوشبو سے فضا لطیف ہوجاتی ہے۔
۴۔بہت آہستہ آہستہ اور گہرے سانس
لینے کے بعد سینہ میں روکے بغیر منہ سے آہستہ آہستہ خارج کریں۔ سانس نکالتے وقت
منہ سیٹی کی طرح گول کریں۔ گہرائی میں سانس لینے سے ذہن بڑی حد تک یکسو ہوجاتا ہے۔
تصور شیخ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آنکھیں بند کر کے یہ
دیکھا جائے کہ شیخ ہمارے سامنے بیٹھا ہے اور شیخ کی شکل و صورت ایسی ہے، ناک ایسی
ہے یا آنکھیں ایسی ہیں۔تصور سے مراد یہ ہے کہ ذہن کو شیخ یا گرو کی طرف متوجہ
کردیا جائے اگر ذہن میں یہ بات ہے کہ شیخ یا گرو کی صورت ایسی ہے ، ناک ایسی ہے،
آنکھیں ایسی ہیں تو ذہن چونکہ دیکھنے میں مصروف ہوگیا ہے اس لیے یکسو نہیں ہو گا۔
تصور
شیخ کا مفہوم ہے۔۔۔۔۔شیخ کے خیال میں بے خیال ہوجانا۔
دعا
گو عظیمی ۱۶ ،
جولائی ۱۹۸۶ ئ
، ناظم آباد ۔ کراچ1-D-1/7
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔