Topics

تسنیم اقبال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

آپ کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں آ نے دن اور رات کا تعلق روحانیت سے جوڑا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں بنایا۔ ظاہر ہے کہ ان ایام کا تعلق مادیت سے ہے۔ وضاحت فرمادیں۔

شکریہ

تسنیم اقبال

(سوال مختصر کرکے لکھا گیا ہے)

 

عزیز مکرم بھائی تسنیم اقبال صاحب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

میرے محدود علم کے مطابق قرآن پاک تین عنوانات کی دستاویز ہے۔ ہر عنوان میں اجمال بھی ہے اور تفصیل بھی۔ وہ تین عنوانات یہ ہیں۔

۱۔ معاشرہ

۲۔ تاریخ

۳۔ معاد

میرے جس مضمون کے اوپر آپ نے نہایت محققانہ، عالمانہ گرامی نامہ تحریر فرمایا ہے وہ معاد کے تحت لکھا گیا ہے۔ قرآن پاک میں دو حواس کا تذکرہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے اور یہ دو حواس قرآن پاک کی زبان میں ”لیل“ اور ”نہار“ (دن، رات) ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان پر ایک وقت گزرا ہے جب وہ ناقابل تذکرہ شے تھا، ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی اور وہ سنتا، دیکھتا ہوگیا۔

روح جب تک مادی اجسام میں میں خود کو متحرک یا اپنا میڈیم بنائے رکھتی ہے، حرکت قائم رہتی ہے۔ جیسے ہی روح مادی وجود سے رشتہ منقطع کرلیتی ہے، مادی وجود کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں جو بھی پیدا ہوتا ہے بالآخر مرجاتا ہے اور جب وہ مرجاتا ہے یعنی روح، جسم سے رشتہ منقطع کرلیتی ہے تو باوجودیکہ تمام اعضاء موجود ہوتے ہیں، حرکت ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح کہیں گے کہ مادی وجود کا قیام اس وقت تک ہے جب تک روح اسے سنبھالے رکھتی ہے۔ مثال دینے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجائے اس لئے ایک مثال پیش خدمت ہے……

مادی جسم کی حفاظت کے لئے، مادی جسم کے آرام کے لئے اور مادی جسم کی زینت کے لئے انسان لباس بناتا ہے۔ لباس اون کا ہو، سوت کا ہو یا کسی بھی چیز کا ہو…… روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جسم کے اوپر قمیض جب تک ہے آستین ہلتی ہے…… لباس چارپائی پر ڈال دیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ حرکت کرو تو کسی قسم یک حرکت نہیں ہوتی جیسے روح کے بغیر مادی جسم میں حرکت نہیں ہوتی۔ مثال سے یہ ثابت ہواکہ مادی جسم دراصل روح کا لباس ہے۔ ایسا لباس جو روح کے بغیر کھاتا ہے نہ پیتا ہے، سوتا ہے نہ جاگتا ہے اور حرکت کرتا ہے یعنی انسان کی اصل اس کی روح ہے، مادی جسم نہیں۔ مادی جسم ہیولا ہے۔ ایسا ہیولا جو ذاتی حیثیت میں قائم نہیں بلکہ روح کے تابع ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ

ہم رات کو دن میں داخل کردیتے ہیں اوردن کو رات میں داخل کردیتے ہیں۔ رات کو دن پر سے ادھیڑ لیتے ہیں اور دن کو رات پر سے ادھیڑلیتے ہیں۔ رات کو دن میں سے نکالتے ہیں اور دن میں سے رات کو نکالتے ہیں۔

دراصل یہ شعور کی درجہ بندی کا تذکرہ ہے۔ انسان کے اندر ہمہ وقت ”معاد“ کے نکتۂ نظر سے دو حواس یا دو شعور ہر وقت کام کرتی رہتے ہیں۔ ایک حواس یا شعور کا نام دن ہے اور دوسرے حواس یا شعور کا نام رات ہے۔ رات کے حواس میں انسان زمان اور مکان سے آزاد زندگی بسر کرتا ہے…… دن کے حواس میں انسان زمان اور مکان میں بند زندگی گزارتا ہے۔ دن کے حواس عارضی اور فکشن ہیں جو مرنے کے بعد معطل ہوجاتے ہیں۔ مرنے کے بعد بندہ مادی حد بندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ مٹی کے ذرات سے بنے ہوئے جسم کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔

عزیز محترم تسنیم اقبال صاحب! آپ نے پتہ نہیں کس طرح ایام کو مادیت سے تعبیر کیا ہے…… اگر آپ اس بات کی تشریح کردیتے کہ چھ ایام میں مادیت کا کیا عمل دخل ہے اور ہم ایام کو کس طرح مادی وجود میں بیان کرسکتے ہیں تو بڑا کرم ہوتا۔ اگر یہ بات طے ہوجاتی کہ چھ ایام مادی تخلیق کی دلیل ہیں تو یہ بات بھی سامنے آجاتی کہ سات آسمانوں کی کیا حیثیت ہے۔

اللہ کا ارشاد ہے کہ ہم نے قرآن کریم میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کی وضاحت کردی ہے۔ مجھے اس بات پر بہت خوشی ہے کہ اللہ نے آپ کو بہت روشن دماغ عطا کیا ہے۔ آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ قرآن کریم میں ”معاد“ کے عنوان کے تحت بھی تفکر فرمائیں۔

میں بہت چھوٹا سا اور محدود علم رکھنے والا بندہ ہوں، علمی موشگافیوں کا مجھے نہ تجربہ ہے اور نہ ہی اپنے اندر اتنی صلاحیت دیکھتا ہوں کہ بال کی کھال نکال لاؤں۔ پیرومرشد کی ضرورت کا جہاں تک تعلق ہے اس کے پیچھے یہ دلیل ہے…… کوئی بھی علم استاد کے بغیر نہیں سیکھا جاسکتا۔

”معاد“ کا علم چونکہ رات کے حواس سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ہمیں اگر رات اور دن کے حواس کے بارے میں، چھ دن اور سات آسمانوں کے بارے میں، عرش، بیت المعمور، سدرۃ المنتہیٰ، کتاب المبین، حجاب عظمت، حجاب کبریا، حجاب محمود، مقام محمود، تجلی اور تدلیٰ کے بارے میں علم سیکھنا ہے تو ہمیں مرشد کی ضرورت ہوگی اور اگر ہم یہ علم نہ سیکھنا چاہیں، مرشد کی کوئی ضرورت نہیں۔

اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور ہم سب کو دنیاوی علوم کے ساتھ روحانی علوم (معاد) سیکھنے کی صلاحیت عطا کرے۔ آمین

مرسلہ گرامی نامہ کے جواب میں تاخیر کی بہت ساری وجوہات ہیں

O  کراچی/ملک سے باہر قیام O  بیماری اور ذاتی مصروفیات

O  چوتھی بین الاقوامی روحانی کانفرنس کی تیاری اور اس کا انعقادO دوسری سالانہ روحانی ورکشاپ

امید ہے کہ آپ میری معذرت کو قبول فرمائیں گے۔ خصوصی اوقات میں آپ سے دعا کی درخواست ہے۔

دعاگو

عظیمی

۳، مارچ ۱۹۹۴ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔