Topics

ڈاکٹر سنبل کامران ( کراچی)

جناب استاد محترم

          السلام علیکم ورحمتہ اللہ

          اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہوں کہ آپ کی شفقت و عنایات ہمیشہ ہمارے شامل حال رہیں اور اللہ تعالیٰ آپ کی صحت میں برکت عطا فرمائیں ۔ آمین

          جناب! فی زمانہ سائنس اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ پتہ لگایا جائے کہ ہمارے سیارے کے علاوہ کسی دوسرے سیارے پر آبادی ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ روحانیت اس بارے میں کیا کہتی ہے۔۔۔ میں نے ایسے سادھوؤں، جوگیوں اور سنیاسیوں کے متعلق پڑھا ہے جو اپنی روح کو جسم سے الگ کر کے کائنات میں سفر کرتے ہیں کیا اس طرح کے روحانی سفر کے ذریعہ دوسرے سیاروں کی مخلوقات کو دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔

   ڈاکٹر سنبل کامران ( کراچی)

         

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          ستاروں اور سیاروں کا لامتناہی پھیلا ہوا سلسلہ بے آباد، ویران اور خالی نہیں ہے بلکہ ان میں بیشتر سیارے آباد ہیں۔ خالق کائنات اللہ نے یہ وسیع و عریض کائنات اس لئے پیدا کی ہے کہ مخلوقات اس بات کو جانیں کہ کوئی ان کا خالق ہے اور وہ اس کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ جو سیارے ہمیں نظر آتے ہیں اور جو نگاہوں سے اوجھل ہیں، ان میں سے اکثرپر انسان اور جنات آباد ہیں۔ یہی دو مخلوق ہیں جو اس کائنات کے نظام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں البتہ ہر سیارے میں مخلوقات کی حرکات و سکنات اور شکل و صورت کی مقداروں میں فرق ہے۔

          کسی سیارے میں انسان روشنی کا بنا ہوا ہیولا نظر آتا ہے تو کسی سیارے میں انسان شفاف (Transparent) نظر آتا ہے یعنی ایسے سیارے کا آدمی ہمارے سامنے آجائے تو ہمیں اس کے آر پار نظر آئے گا ۔ کسی سیارے میں انسان کا رنگ سونے کی طرح سنہرا ہے، وغیرہ وغیرہ ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس سیارے پر جس نوع کی مخلوق آباد ہے اس سیارے میں زیلی مخلوق یعنی حیوانات، نباتات وغیرہ بھی اسی مخلوق کی طرح تخلیق ہوئی ہیں مثلاً جس سیارے میں انسانی مخلوق شفاف (Transparent) ہے تو اس سر زمین پر پیدا ہونے والی ہر شے شفاف (Transparent) ہے۔ درخت کا تنا اس طرح ہے کہ جیسے شیشے کا ایک ستون۔ لیکن اس شیشے کے ستون میں درخت کے متعلق رگیں اور لکڑی کے جوڑ سب موجود ہیں ، پتے موجود ہیں، وہ بھی شیشے کی مانند شفاف (Transparent) اور ایک ایک رگ کے درمیان جال نظر آتا ہے۔

          ہر سیارے میں وقت کی پیمائش اور درجہ بندی بھی الگ الگ ہے۔ ہر سیارے میں آباد انسان اور جنات میں معاشرتی اور مذہبی قدریں رائج ہیں اور زمینی مخلوق کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ البتہ کشش ثقل کی مقداروں میں فرق کی وجہ سے ہر سیارے کا وقت اور اس کی تخلیق الگ الگ ہے۔

          سیاروں اور کہکشانی نظاموں سے متعارف ہونے اور ان کی طرز حیات کا معائنہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ذہنی صلاحیت متحرک ہو جو زمان و مکان کی حقیقت سے واقف ہو۔ ذہن میں رفتار کی مقداریں اگر دوسرے سیاروں سے متوازن ہو جائیں تو ہم کسی سیارے کی حدود یا اس کے  Atmosphere میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ذہن کو زمان و مکان سے آزاد کرنے کی یہ کوشش روح کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا نام ہے۔ کیونکہ روح زمان و مکان کی گرفت سے آزاد ہے۔

          قران پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

                   اے گروہ جنات اور انسان اگر تم زمین اور آسمانوں کے کناروں سے نکل سکتے

                   ہو تو نکل جاؤ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔ ۳۳:۵۵

          روحانیت اور تصوف میں سلطان کا مطلب روح اور روحانی صلاحیتیں ہیں۔ ٹائم اسپیس سے آزاد ہونے کا طریقہ روحانی استاد کی نگرانی میں مراقبہ ہے۔ کوئی بھی شخص مسلسل مراقبہ کی مشق کر کے اپنے زہن کو کشش ثقل سے آزاد کر سکتا ہے اور واپس آسکتا ہے قدرت نے یہ صلاحیت ہر شخص کو ودیعت کی ہے یہ کسی خاص گرو ہ یا طبقہ کے لئے مخصوص نہیں ہے۔

                                                                                                            دعاگوعظیمی

                                                                                      اپریل  ۲۰۱۴  ء

                                                                                      ماہنامہ قلندر شعور، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔