Topics

ناصر محبوب (ماسکو روس)

روحانی مکاشفات یا  واردات کو پڑھتے ہوئے ماورایت کااحساس ہوتا ہے۔ماڈرن تہذیب کے کچھ لوگ روحانیت کو قوتِ متخلیہ کی جلوہ سامانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے آپ اس عقدہ کس طرح کھولیں گے؟

     ناصر محبوب (ماسکو روس)

      

    آدم جب سے زمین پر آباد ہے اس علم سےواقف ہوتا رہا کہ زمین کے اندر ایسی چھپی ہوئی  طاقتیں موجود ہیں جن سے زندگی کے لئے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ بیج بویا جاتا ہے تو بیج کی طاقت اور زمین کی طاقت مل کر ضرب ہوتی ہے۔ نتیجہ میں تیسری چیز کا وجود پیکر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ سائنسی نکتہ نظر سے کہا جا سکتا ہے کہ بیج کے اندر انرجی زمین کی انرجی سے مل کر مظاہرہ کرتی ہے تو پودا نمودار ہوتا ہے اور بڑھ کر تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس درخت میں پھل اور پھول لگتے ہیں۔ بیج اور زمین کے اندر طاقت کی کنہ کیا ہے۔

          بیج ایک تشخیص ہے اور بیج کے اندر صفات درخت ہے جو نشوونما پانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ بیج کا دوسرا وصف یہ ہے کہ بیج صفت کا مظاہرہ کرتا ہے یعنی پھول بنتا ہے تو اس کے اندر بھی بیج ہوتے ہیں۔ درخت کا بیج ہو، بیج کے اندر رنگ ہو، رنگوں میں امتزاج ہو اور غلاف میں بند ہو یہ سب صفات کا مظاہرہ ہیں۔

          روحانی انسان بیج کا تجزیہ کرتا ہے اور انر میں موجود روشنی سے بیج کے اندر تفکر کرتا ہے تو کہتا ہے کہ بیج صفاتی مظہر ہے۔ ہم جب عقل و شعور کے اعتبار سے بیج کی صفات کا احاطہ نہیں کر سکتے تو بالآخر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اللہ کی صفات کو سمجھنا محدود و عقل و شعور سے ماورا ہے۔ محدودیت سے نکلنے کے لئے ارتکاز توجہ یا مراقبہ پہلا طریقہ ہے۔

          زیادہ پڑھے لکھے لوگ ، سائنسی نظریات کی بھول بھلیوں میں گم افراد ، عقل و شعور سے آراستہ دانشور جب روحانی علوم کے اندر غور کرتے ہیں ( کیونکہ ان علوم کو وہ عقل و شعور کے دائرہ میں بند کرنا چاہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر لا متناہی علم کو تناہیت میں قید کرنا چاہتے ہیں۔) اور ان کےسامنے جب کوئی حل نہیں آتا تو وہ روحانیت کو قوتِ متخلیہ کہہ دیتے ہیں۔ روحانیت کو قوت متخلیہ کہہ کرگزر جانے کے بعد تحقیق و تلاش کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک قوت متخلیہ کاتعلق ہے خیال کی کارفرمائی سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ زندگی کے سارے اعمال و اشغال قوت متخیلہ  کے اوپر قائم ہیں۔ دانشور یہ تو کہتے ہیں کہ روحانیت قوت متخیلہ کا مرکب ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ قوت متخیلہ کیا ہے؟ جتنی ترقی سامنے آچکی ہے اور آئے گی سب میں ربط قائم کیا جائے  تو کہا جائے گا کہ یہ سب قوت متخیلہ ہے۔

          دانش وروں کے دماغ میں خیال آیا کہ ایسا ہتھیار ایجاد کرنا چاہیے جس سے بیک وقت لاکھوں جانیں موت کے گھاٹ اتر جائیں۔ دوسرے کو خیال آیا کہ ایسا آلہ ایجاد کیا جائے جو آوازوں کو پکڑ لے۔ تیسرے کے دماغ میں خیال ایا کہ ایسی اسکرین بنانی چاہیئے جس اسکرین پر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے پر تصویر منعکس ہو جائے۔ یہ سب ایجادات کسی ایک بندہ کے ذہن سے شروع ہوئیں۔ اس خیال پر زہنی استعداد کو مسلسل اور متواتر مرکوز کیا گیا تو نئی نئی ایجادات وجود میں آتی رہیں۔ سوال یہ ہے اگر تحقیق و تلاش کے نتیجہ میں کوئی ایجاد کسی ایک دانشور تک محدود رہ جاتی اور دوسرے لوگ اپنی خیالی قوت کو اس ایجاد پر استعمال نہ کرتے تو ایجاد کس طرح وجود میں آتی۔

ہستی  کے  مت  فریب  میں  آ جائیو  اسد

عالم   تمام    حلقہ    دام    خیال     ہے

          یہ کہہ دینا کہ روحانیت قوت متخیلہ ہے، کم فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ روحانیت میں خیال ایسی اطلاع کو کہا جاتا ہے جو اطلاع مسلسل اور متواتر کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے۔ جب کوئی اطلاع یا خیال کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے تو بالآخر وہ چیز جو خیال میں موجود ہے ، مظہر بن جاتی ہے۔۔۔۔ مظہر صفات کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ روحانی انسان برگد کے درخت کا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ بیج نے اپنی صفات کا مظاہرہ ہونا شروع ہو گیا ۔ یہ مظاہرہ بڑے درخت کی شکل میں زمین کے اوپر نمودار ہو گیا۔

صفات دراصل آدمی کے اندر اطلاعات کا ذخیرہ ہے۔ ان اطلاعات میں سے چند یاپوری اطلاعات کو انسان خیال کی طاقت سے ایک نقطہ پر مرکوز کردیتا ہے تو خیال کے اندر لامتناہی اطلاعات میں ابال آجاتا ہے اورآنکھوں کے سامنے ،مظاہرات آنے لگتے ہیں۔ خیالات کا ایک نقطہ پر مرکوز ہونا مراقبہ ہے۔

          زندگی کیا ہے۔۔۔ اگر خیال کی کارفرمائی نہ ہو تو ہم کوئی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔ بھوک پیاس ، گرم سردکا احساس ، سونا جاگنا، غمگین یا خوش ہونا کیا خیال کی گرفت سے باہر ہے؟ ۔۔۔ ہم جب بھوک پیاس، شادی اولاد اور کسی بھی عمل کا ارادہ کرتے ہیں تو زندگی کے یہ سب عوامل خیال کے تابع نہیں ہیں۔۔۔۔بتایئے پیدائش سے پہلے، پیدائش کے بعد کوئی عمل ایسا ہے جس کا خیال نہ آتا ہو اور وہ ہو جاتا ہو۔

                                                                             دعاگو

                                                                             عظیمی

                                                                             ۲ جنوری ۱۹۹۸ء

                                                                       مرکرزی مراقبہ ہال، سرجانی ٹاؤن ۔ کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔