Topics

عماد الدین

عزیز القدر عمادالدین صاحب

          وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ

          اللہ تعالی آپ کو دین اور دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے ، آمین۔

          اب سے صدیوں پہلے یا موجودہ دور کی سائنسی ایجادات ہو۔۔۔۔ مخفی صلاحیتوں کے استعمال کا مظاہرہ ہیں۔ انسان مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرکے کسی شے میں خواہ وہ ایٹم ہی کیوں نہ ہو تفکر کرتا ہے تو اس کے اوپر شے کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کو انکشاف ہوتا ہے۔۔۔۔ہر ترقی اور موجودہ سائنس اسی ضابطہ اور قاعدہ پر قائم ہے۔

                   کسی بات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے غیر جانبدار ہونا

                      ضروری ہے۔ غیر جانبدار ذہن نہ ہونے سے معنی

                      پہنانے میں مصلحتیں شامل ہوجاتی ہیں۔

          ہر شخص کو طرز فکر کے دو زاویے حاصل ہیں، ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کو سامنے رکھ کر غوروفکر کرتا ہے۔ جو بندہ اپنی ذات کو سامنے رکھ کر تجسس کرتا ہے اس کے اوپر حقائق منکشف نہیں ہوتے اور جو بندہ غیر جانبدار ہوکر گہرائی میں غور و فکر کرتا ہے، اس کے اوپر حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔

ارسطو کے زمانے سے لے کر گزشتہ صدی کے وسط تک لوگ اس بات کے قائل رہے ہیں کہ حیات ، جاندار مادوں کے علاوہ بے جان چیزوں سے مل کر بھی پیدا ہوتی ہے۔ارسطو نے اپنی کتاب ہسٹوریا انیما لیم ( Historia Animalium) کی چوتھی جلدکے پندرہویں باب میں لکھا ہے، عام طور پر مچھلیاں انڈوں سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ایسی مچھلیاں بھی ہیں جو ایک خاص ماحول کے تحت کیچڑ سے پیدا ہوجاتی ہیں۔۔۔۔ارسطو کے بعد دو ہزار سال تک یہ نظر یہ تسلیم کیا جاتا رہا لیکن محققین کے مشاہدات اور تجربات اس نظر یہ کو ثابت نہیں کر سکے اس لئے مسترد کردیا۔ پھر دوسرا نظریہ جسے’’ حیات سے حیات کا نظریہ‘‘ (Biogenesis) کہا جاتا ہے اپنا لیا گیا۔اس کے مطابق حیات کبھی غیر جاندار چیزوں سے مل کر پیدا نہیں ہوتی۔

کیمیا (Chemistry) کی تاریخ میں قانون بقائے مادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس قانون کی رو سے مادہ کسی بھی کیمیائی تعامل ( Chemical Reaction) کے دوران پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فنا کیا جاسکتا ہے۔ عرصہ تک اسی نظریہ کو تسلیم کیا جاتا رہا۔ ہر نامور محقق نے اس نظریہ کو صحیح ثابت کیا لیکن محقق آئن سٹائن نے بتایا کہ مادہ فنا کیا جا سکتا ہے۔ آئن سٹائن کا نظریہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ مادہ کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہونے سے مادہ توانائی میں تحلیل ہوجاتا ہے۔

آئن سٹائن نے یہ بھی  بتایا کہ حرکت کے دوران اجسام کی رفتار کے مطابق ان کی کمیت (Mass) میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن آئن سٹائن نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کوئی تجربہ یا مشاہدہ پیش نہیں کیا۔نظریہ اضافت (Theory of Relativity ) کو ہر سائنسدان نے تسلیم کیا۔ یہ کہانی ہے آج کے دور کے علوم کی۔۔۔۔۔جن کی بنیاد پر بے پناہ ترقی ہوئی ہے۔

سوال یہ ہے۔۔۔۔کیا کوئی ایسا فارمولا ہے جس کو بنیاد بنا کر ہم اس حقیقت تک پہنچ سکیں کہ حیات کیا ہے اور اس فارمولے کو مسترد نہ کیا جا سکے۔۔۔۔میری زندگی کا ہر لمحہ حیات ہے لیکن زندگی کے دوسرے لمحہ میں پہلا لمحہ مرجاتا ہے۔اب ہم یوں کہیں گے کہ جس طرح حیات کو امر مسلمہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح فنا بھی حقیقت ہے۔یعنی حیاتیاتی قانون یہ بنا کہ حیات سے حیات پیدا نہیں ہو رہی بلکہ فنا سے حیات اور حیات سے فنا تخلیق ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت اس طرح بھی بیان کیا جاسکتی ہے کہ فنا اور حیات دونوں حقیقت ہیں۔جب ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ فنا اور حیات دونوں زندگی ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ فنا ہی دراصل حیات ہے۔ میری آج کی زندگی کے موجودہ لمحہ پر فنا وارد نہ ہو تو میں اگلے مرحلہ میں داخل نہیں ہوتا۔ بچہ پنگھوڑے میں سے باہر نہیں آئے گا اگر اس کی زندگی فنا سے گزر کر اگلے مرحلہ میں داخل نہ ہو۔ حیاتیاتی محققین نے جو کچھ کہا ہے وہ فنا سے حیات اور حیات سے فنا کے نظریہ کے مطابق نہیں ہے۔

مثال : ہم مادی جسم کے ساتھ پیدا ہوئے، نشوو نما پاکر جوان ہوئے، مضبوط ا عصاب پر بڑھاپا طاری ہو اور پھر ہم نابود ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ ایک دن کا بچہ ، ایک سال کا بچہ ، اٹھارہ سال کے جوان اور ساٹھ سال کے بزرگ کی حیات کو کون نگل گیا۔وہ کہاں اور کیوں روپوش ہوگئی۔۔۔۔۔یہ ضروری کیوں نہیں ہے کہ ہم ساٹھ سالہ تجرباتی زندگی کو تلاش کریں۔۔۔۔۔ساٹھ سال جس کے۔۔۔۔۔

                   اکیس ہزار نوسو ۔۔۔۔دن۔۔۔۔۔

                   پانچ لاکھ پچیس ہزار چھ سو۔۔۔۔۔۔گھنٹے۔۔۔۔

                   تین کروڑ پندرہ لاکھ چھتیس ہزار ۔۔۔۔۔۔۔منٹ اور

                   ایک ارب نواسی کروڑ اکیس لاکھ ساٹھ ہزار ۔۔۔۔۔سیکنڈ ہوتے ہیں۔

کیسے ممکن ہے اتنا طویل وقفہ ہم نظر انداز کردیں۔۔۔۔۔محققین نظریات کی روشنی میں نوع انسانی کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ حیات کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سائنسی نظریہ یا تو تبدیل ہوجاتا ہے یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔کوئی نظریہ اس وقت حقیقی ہے جب وہ تبدیل اور مسترد نہ ہو۔حیات سے متعلق تبدیل نہ ہونے والا اور کسی بھی صورت میں جس نظریہ کو مسترد نہ کیا جا سکتا ہو، اس کی نشاندہی آخری الہامی کتاب قرآن کریم میں ہے۔ قرآن کریم اور آسمانی کتابوں کے مطابق حیات دو طرح کے حواس پر قائم ہے۔ ایک طرح کے حواس مفروضہ ہیں۔ ان حواس میں جب بھی کوئی فیصلہ کیا جائے گا مفروضہ اور فکشن ہوگا۔

فی الواقع حیات کی اصل فنا ہے۔زندگی فنا سے نکلتی ہے اور فنا زندگی بن رہی ہے۔ یہ کہنا ہے کہ حیات کبھی غیر جاندار چیزوں سے مل کر پیدا نہیں ہوتی، مفروضہ حواس کی کارفرمائی ہے، اس لئے کہ جن چیزوں کو بے جان کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ بھی حیات ہیں۔ مشاہدات ثابت کرتے ہیں کہ کائنات میں کوئی وجود زندگی کے بغیر موجود نہیں ہے۔اب یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی شے حیات کے بغیر بھی موجود ہے، دلیل کے ساتھ سائنسی نظریہ کی نفی ہے۔ قانون یہ ہے کہ جب جان سے جان ملتی ہے تو تیسری جان خدوخال بن جاتی ہے۔ حیات و ممات، فنا اور زندگی کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم آخری الہامی کتاب قرآن کریم سے رجوع کریں۔

                                                              دعا گو                                                                                                                        عظیمی

                                                                      اگست  ۱۹۸۴ء

                                               1-D-1/7 ، ناظم آباد ۔ کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔