Topics

مقصود احمد

محترم و مکرم عظیمی صاحب

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ …… خدوخال کس طرح وجود میں آتے ہیں …… ان کی تشکیل میں روشنی اور خلا کا کیا کردار ہے اور اطلاع میں پنہاں تصویریں زمین پر کس طرح مظہر بن رہی ہیں۔ مثالوں سے وضاحت فرمادیں تو بات کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

نیازمند

مقصود احمد

 

مقصود احمد صاحب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

جس کائنات کو مادی آنکھ دیکھتی ہے اور پہچانتی ہے اس کی بنیاد روشنی ہے۔ ایسی روشنی جس کے اندر بہاؤ ہے۔  موجودہ دور کی سائنس اس کوGasesنام سے  جانتی ہے۔ روشنیوں کے بہاؤ سے مراد یہ ہے کہ صدہا Gasesکے اجتماع سے شکلیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔

اس کی مثال یہ ہے، ایک گلاس پانی بھر کر دیوار پر زور سے پھینکا جائے۔ پانی بہنے کے بعد جب دیوار پر پوری طرح پھیل جائے تو غور سے دیکھنے سے دیوار کے اوپر مختلف شکلیں نظر آتی ہیں۔ جس طرح پانی دیوار کے اوپر مختلف شبیہیں بنالیتا ہے۔ اس طرح نزول کرنے والی روشنیوں کا بہاؤ جب زمین جو کہ کائنات کی ایک اسکرین ہے، پر نزول کرتا ہے تو روشنیاں پھیلنے اور بکھرنے سے افراد کائنات کی شکلیں بن جاتی ہیں۔

بہاؤ کا زمین کی اسکرین سے ٹکرانے کے بعد شبیہ کے اندر جو بنیادی مسالا بنتا ہے وہ مرکری (Mercury) ہوتا ہے۔ روشنیوں کے بہاؤ کے بعد پارے کی روشنیوں سے مل کر اور ایک دوسرے کے اندرجذب ہو کر اجسام بنتے ہیں۔ انہی اجسام کو حیوانات، نباتات اور جمادات کہا جاتا ہے۔

گیسوں میں جو ابتدائی گیس نکلتی ہے اس گیس کی ابتدائی شکل کا نام جسم مثالی ہے۔ جسم مثالی ان بنیادی لہروں یا ان بنیادی شعاعوں کا نام ہے جو وجود کی ابتدا کرتی ہیں۔ نزول کرنے والی لہروں کو لکیروں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

اس بات کو ہم مثال سے واضح کرسکتے ہیں۔ جس آدمی نے بھی سینما میں فلم دیکھی ہے وہ جانتا ہے کہ پروجیکٹر سے مخصوص روشن دان کے ذریعے لہروں کا بہاؤ ہوتا ہے۔ روشنیوں اور لہروں کا یہ بہاؤ اسکرین پر نزول کرتا ہے اور اسکرین سے ٹکرا کر مختلف شکلوں اور صورتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جب ہم گردن اٹھا کر پروجیکٹر سے نکلنے والی فلمی روشنیوں یا شعاعوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں مسلسل اور متواتر چلتی ہوئی لہروں یا لکیروں کا احساس ہوتا ہے۔ یہ لکیریں نہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتی ہیں اور نہ ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں۔ ہر لکیر اپنی جگہ تصویر کا کوئی نہ کوئی خدوخال ہے۔ جس طرح پروجیکٹر سے نکلنے والی روشنیاں اسکرین سے ٹکرا کر تصویریں بنتی ہیں اسی طرح خلا میں سے گزر کر لہریں یا لطیف لہریں مادی اجسام بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماورائی لکیریں مادی اجسام میں ایک بنیادی واسطہ ہیں۔ پروجیکٹر سے نکلنے والی شعاعوں کو مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ ماورائی لکیروں کو صرف شہود کی وہ آنکھ دیکھ سکتی ہے جو روح کی نگاہ ہے۔ ایسی کوئی ایجادابھی تک وجود میں نہیں آئی کہ جس کے ذریعے ماورائی لکیروں کو دیکھا جاسکے البتہ ان لکیروں کے تاثرات کو سائنسی ایجادات کے ذریعے مادیت کے مظہر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

آج کل ماورائی لہروں پر بہت تحقیق ہورہی ہے۔ ماورائی لہروں کے عکس (Shadow) کو کیمرے کے ذریعے دیکھ لیا گیا ہے۔ یہ دیکھنا لہروں، لکیروں کی شکل میں نہیں ہے بلکہ لہروں اور لکیروں کی روشنیوں کا انعکاس ہے۔ انعکاس چونکہ مادیت کے مظہر کی صورت اختیار کرلیتا ہے اس لئے نظر آجاتا ہے۔ جن شعاعوں یا لکیروں سے جسمانی خدوخال وجود میں آتے ہیں یہ دو طرح کی ہوتی ہیں۔

۱۔  مفرد لکیریں  ۲۔ مرکب لکیریں

لہریں مفرد ہوں یا مرکب…… خلا میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ وہ نہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ یہ لکیریں مفرد ہوں یا مرکب ہوں، مادی اجسام میں خدوخال بھی بنتی ہیں اور خدوخال کو ہر دوسرے فرد پر منعکس کرتی ہیں۔ ان لہروں یا لکیروں کے تاثرات سے حسیں (Senses) بنتی ہیں۔

۱: لکیریں اور لہریں دماغ کے اوپر جب نزول کرتی ہیں تو نزول کے بعد دماغ کے اوپر ہلکا سا دباؤ پڑتا ہے، اتنا ہلکا کہ حواس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ یہ ہلکا سا دباؤ کسی بات سے متعلق، کسی عمل سے متعلق یا کسی زندگی سے متعلق ہوتا ہے۔ اس زندگی کا تعلق ماضی، حال اور مستقبل سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس دباؤ کا نام واہمہ ہے۔

۲: جب یہ دباؤ ذرا زیادہ ہوتاہے تو حواس میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اس ہلکے ارتعاش میں ذہن کے اوپر لہروں سے بنی تصویر کا بہت ہلکا سا خاکہ حواس کے اندر داخل ہوجاتا ہے، اس کیفیت کا نام خیال ہے۔

۳: روشنیوں کا نزول جب گہرا ہوتا ہے تو دماغ کے اوپر نقش و نگار واضح ہوجاتے ہیں۔ کسی چیز کا خاکہ جب نمایاں ہوتا ہے تو ذہن اس کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے اور ذہن میں یہ بات آنے لگتی ہے کہ فلاں چیز کے بارے میں یہ خیال آرہا ہے۔ اس کیفیت کا نام تصور ہے۔

۴: ارو جب تصور میں گہرائی ہوجاتی ہے تو احساس بن جاتا ہے۔

۵: احساس کے اندر رنگینی واقع ہوجاتی ہے تو وہ کیفیت جس کو ہم نے واہمہ، خیال، تصور اور احساس کہا ہے، اپنے پورے خدوخال کے ساتھ مظہر بن کر ہماری مادی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔

 

دعاگو

خواجہ شمس الدین عظیمی

دسمبر، ۱۹۹۵ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔