Topics

تصدق حسین

عزیزی تصدق حسین صاحب

          وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ

          آپ نے تصور شیخ کے بارے میں پوچھا ہے۔ تصور کی صحیح تعریف سمجھنے کے لئے دو بنیادو باتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔پہلی یہ کہ کسی چیز کی معنویت اور حقیقت ہمارے اوپر اس وقت آشکا ر ہوتی ہے جب ہم اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ کوئی چیز ہمارے سامنے ہے لیکن ذہنی طورپپر ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو وہ چیز ہمارے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ مثلاََ ہم گھر سے نکلتے ہیں کہ ہمیں دفتر جا کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں، اگر دفتر پہنچنے کے بعد کوئی پوچھے کہ آپ نے راستہ میں کیا کیا چیزیں دیکھیں تو ہم کہیں گے کہ ہم نے دھیان نہیں دیا حالانکہ یہ ساری چیزیں نظروں کے سامنے سے گزری ہیں۔

          دوسری اہم بات دلچسپی اور ذوق و شوق ہے۔ ہم کوئی دلچسپ کتاب پڑھتے ہیں تو وقت کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس کوئی غیر دلچسپ مضمون پڑھ کر چند منٹ میں ذہن بوجھ اور کوفت محسوس کرنے لگتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ذہنی مرکزیت کے ساتھ ساتھ اگر دلچسپی اور ذوق و شوق ہو تو کام آسان ہوجاتا ہے۔

          مراقبہ یا تصور کی مشقوں سے بھر پور فائدہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صاحب مشق جب بھی آنکھیں بند کر کے تصور کرے تو اسے خود سے اور ماحول سے بے نیاز ہوجانا چاہئے۔ اتنا بے نیاز کہ اس کے اوپر سے بتدریج ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جائے یعنی اس تصور میں اتنا انہماک ہوجائے کہ وقت گذرنے کا احساس نہ رہے اور ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک تصور یا خیال میں بے خیا ل ہوجاتے ہیں۔ بے خیا ل ہوجانے کا مطلب ہے ہم صرف ایک خیال میں یکسو ہوجاتے ہیں اور ہمیں کوئی دوسرا خیال نہیں آتا۔

          یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اگر آپ نور کا تصور کررہے ہیں تو آنکھیں بند کر کے کسی خاص روشنی کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ صرف نور کی طرف دھیان قائم کریں۔نور جو کچھ ہے اور جس طرح ہے ازخود آپ کے سامنے آجائے گا۔ اصل مُدعا کسی ایک طرف دھیان کر کے ذہنی یکسوئی حاصل کرنا ہے۔اس کے بعد باطنی علم خودبخود کڑی در کڑی ذہن پر منکشف ہونے لگتا ہے۔

                   تصور کا مطلب اس بات سے کافی حد تک پورا ہوجاتا ہے کہ ’’ کسی ایک خیال میں بے خیال ہونا‘‘۔

          اگر ہم کھلی یا بند آنکھوں سے کسی چیز کا تصور کرتے ہیں اور  تصور میں خیالی تصویر بنا کر اسے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ عمل ذہنی یکسوئی کے دائرہ میں نہیں آتا ۔ذہنی یکسوئی سے مراد یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر دیکھنے اور سننے
کے عمل سے بے خبر ہوجائے۔

                                             دعا گو                                                                                                                                عظیمی                                                                                                                         ۲۲ ، جون  ۱۹۸۷ء   

                                       1-D-1/7  ، ناظم آباد ۔کراچی 

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔