Topics

جناب ابراہیم جلیس صاحب

مکرم بندہ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ علیہ

میں نے جب بھی آپ کے بارے میں سوچا ہے، مجھے یہ معلوم ہوا کہ آپ مجھ سے بہت قریب ہیں۔ ایسا کیوں ہے…… بظاہر اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کو اللہ نے عوامی ذہن ودیعت کیا ہے۔

آپ کے کالم میں یہ پڑھ کر کہ آپ مذہبی کتابوں کا مطالعہ کررہے ہیں …… خوشی ہوئی۔ اس سلسلہ میں چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں …… امید ہے کہ آپ اس پر توجہ دیں گے۔

اللہ کو معلوم ہے کہ مذہبی اعتبار سے ہماری موجودہ طرز فکر وسیع النظر مسلمانوں کے دلی تقاضوں ……اور طبعی رجحانات کو پورا کررہی ہے…… یا اسلام سے دور لے جارہی ہے…… اس دور میں اسلام صرف طہارت و غسل کے مسائل کا مرادف سمجھا جارہا ہے اور یہ ہی تمام باتیں ہمیں ان مذہبی کتابوں میں ملتی ہیں جو تیسری صدی ہجری کے بعد فلسفہ و منطق کی روشنی میں لکھی گئی ہیں …… حالانکہ قرآن پاک میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور معاشرتی مسائل سے متعلق تقریباً ڈیڑھ سو آیات ہیں جبکہ قرآن پاک میں سات سو چھپن آیتیں ہیں جن میں اللہ کی نشانیوں کی پوری پوری وضاحت ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے۔

رات اور دن تمہارے طابع فرمان ہیں۔

سورج، چاند اور ستارے تمہارے محکوم ہیں۔

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب تمہاری

حاکمیت میں ہے۔

ہم نے انسان کو اپنی نیابت (خلافت) عطا فرمائی۔

ہم نے انسان کے اندر اپنی روح پھونکی۔ وغیرہ وغیرہ۔

اللہ کا یہ تمام تخاطب انسان سے ہے۔ خلافت، حاکمیت اور اللہ کی اس روح کو جو انسان کے اندر پھونکی گئی ہے، کو پالینا ہی انسان کا وصف اور ورثہ ہے۔

میرا دل چاہتا ہے کہ آپ مذہبی کتابوں کا مطالعہ اس نہج سے کریں کہ مقصد حقیقی سامنے آجائے…… یہی وہ قدریں ہیں جن کو روحانیت کہا جاتا ہے۔

 

والسلام

آپ کا دوست

احمد شمس الدین عظیمی

۱۹، اکتوبر، ۱۹۶۵

کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔