Topics

شیخ نصیر احمد

السلام علیکم عظیمی صاحب،

یقین ہے آپ خیریت سے ہیں انشاء اللہ۔

آپ ہمہ وقت اللہ کی مخلوق کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔

بیماریوں کا علاج کرتے ہیں، مسائل کا حل بتاتے ہیں،

متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، اللہ نے آپ کو باطنی علوم سے نوازا ہے۔

آپ کی تصانیف باطنی علوم کا ذخیرہ ہیں

یہ نوع انسانی کے لئے خدمت ہے…… جس پر ہم آپ کے ممنون ہیں۔

آپ کی تعلیمات میں رسول اللہ ﷺ کی طرز فکر اور معرفت الٰہی کا پیغام ہے۔ آپ لوگوں کو علم دینا چاہتے ہیں لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ سے علمی سوالات پوچھنے والوں کی تعداد بہت کم اور مسائل پوچھنے والے بے شمار ہیں۔ ہمارے درمیان روحانی شخصیت موجود ہے لیکن ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔

شکریہ

شیخ نصیر احمد

 

گرامی قدر شیخ نصیر احمد صاحب

وعلیکم السلام

میں جس قوم کا فرد ہوں اس کے اندر جس چیز کی طلب ہے یا وہ چاہتی ہے اور مجھے خطوط لکھتی ہے میں اس کی خدمت کردیتا ہوں۔ کوئی صاحب علمی سوال کرتے ہیں، اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ میں علمی سوال کا جواب لکھ دیتا ہوں۔ یہ کام قوم کا ہے کہ اپنے میں سے ایک فرد کو وہ کس طرح استعمال کرتی ہے۔

یہ فقیر یورپ جاتا رہتا ہے، وہاں انگریز بلاتے ہیں۔ گلاسکو یونیورسٹی (جہاں سے سائنس نشوونما پاتی ہے) مجھے بلایا گیا۔ دو سو اسی (۲۸۰) انگریز خواتین و حضرات اور بیس پاکستانی تھے۔ ان دو سو اسی انگریز لوگوں میں سے ایک نے بھی ذاتی حالات سے متعلق سوال نہیں کیا…… جو پوچھا علم کے بارے میں سوال کیا۔ برطانیہ کے کئی بڑے چرچوں میں تقاریر کیں، وہاں بھی کسی ایک بندہ نے علمی سوال کے علاوہ کوئی سوال نہیں کیا۔ امریکہ اور کینیڈا میں ٹی وی پروگرام کے بعد ایسے لگا جیسے بھونچال آگیا ہو۔ ہر آدمی جو مجھ سے ملا یا جس نے فون کیا مراقبہ (Meditation) یا ماورائی علوم کے بارے میں وضاحت چاہی۔ اخباروں میں کالم چھپے۔ وہاں کے مشہور اخباروں نے انٹرویو شائع کئے۔ خطوط میں یہی سوال کیا گیا کہ یہ علم آپ کو کہاں سے حاصل ہوا، ہم بھی یہ Knowledge حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

مسلمان جہاں بھی ملے، وہ اپنے گھریلو مسائل میں الجھے ہوئے نظر آئے۔ سب سے زیادہ جادومسلمان پر ہوتا ہے۔ آسیب اور جناب بھی اس ہی قوم پر عاشق ہوتے ہیں۔ شک اور بے یقینی کا عالم یہ ہے کہ بڑے بڑے عابد و زاہد حضرات و خواتین میرے پاس آتے ہیں کہ بیٹی نے سفلی کرادیا ہے، اس نے بہو پر اور بہو نے ساس پر کالا علم کرادیا ہے اور بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اگر ا سے کہا جائے کہ جادو نہیں ہے تو انہیں اعتبار نہیں آتا۔ میرے پاس عامل حضرات بھی آتے ہیں، وہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ جب تک ہم ایسے لوگوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے اور ان سے معقول رقم خرچ نہیں کرواتے انہیں یقین نہیں آتا۔ ہم لوگ ان کی کمزوری سے کیوں فائدہ نہ اٹھائیں اور پھر ہم انہیں بلانے بھی نہیں جاتے۔

اللہ کے فضل و کرم سے میں مخلوق کی خدمت کرتا ہوں۔ میرے ذہن میں پتہ نہیں کیوں یہ بات سماگئی ہے کہ ایک گھر تو ایسا ہو جہاں روحایت اور اللہ کی آیتوں کا کاروبار نہ ہو۔

اللہ کا کرم ہے کہ میری لکھی ہوئی کتابوں کی پذیرائی ہوتی ہے۔ اردو بازار والے کہتے ہیں کہ عظیمی صاحب کی کتابوں کا لوگ انتظار کرتے ہیں۔ میں اس وقت اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتا ہوں، جب مجھ فقیر کی لکھی ہوئی کتاب لوگ ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ مجھ سے اپنی قوم کی جو بھی خدمت ہوگی اور ہوسکتی ہے، بس کرتا رہوں گا۔ مسلمان قوم مجھ سے اپنے دنیاوی مسائل کے بارے میں مشورہ کرتی ہے، یورپ والے اور پڑھے لکھے لوگ علم کی قدر کرتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات عام ہورہی ہیں۔

اسکاٹ لینڈ کے انگلش عظیمی بھائیوں نے پروگرام بنایا کہ ایک رسالہ نکالا جائے جو انگلش میں ہوگا۔ وہاں اس پروگرام میں کافی پیش رفت ہوچکی ہے۔ میں اپنی قوم سے ہرگز مایوس نہیں ہوا۔ اللہ کے فضل سے ایسی ٹیم تیار ہوگئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے روحانی مشن کو ساری دنیا میں پھیلادے گی۔

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جس طرح بھی ہو ”توحید“ کو ہر مذہب و ملت میں روشناس کرانے کی عملی جدوجہد کروں۔ اس عملی جدوجہد میں امراض کا علاج اور مسائل کا حل بھی ہے۔

یہاں ہر چیز فانی ہے، میں بھی فنائیت کی آخری سیڑھیوں پر ہوں لیکن آواز فضا میں ریکارڈ ہوجاتی ہے۔

 

دعاگو

خواجہ شمس الدین عظیمی

فروری ۱۹۹۶ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔