Topics

برخوردار ماجد

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          دنیا جس دور سے گزر رہی ہے وہ سائنس کا دور ہے، یہاں ہر بات کو حجت اور دلیل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اگر دلائل کے

بغیر کوئی بات کہی جائے تو اس کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ خط کے جواب میں کوشش کی ہے کہ جو بات بھی تحریر کی جائے موجودہ دور کی طرز کے مطابق دلائل اور حقائق پر منبی ہو۔

          زمین و آسمان کے فاصلے ناپنے، چاند سورج کی گردش معلوم کرنے اور چاند کو مسخر کرنے کے خواب دیکھنے والی قوم ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہے کہ زمین کے اوپر اور زیر زمین پھیلے ہوئے وسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کے قابل بنا دیا جائے بڑے بڑے جہاز، آواز سے تیز رفتار طیارے، دیو ہیکل مشین ، ریڈیو ، ٹیلیویژن ، اٹیم اور ہائیڈروجن بم ، خلائی سیارے اور اسپیس شپ وغیرہ یہ سب انہیں کوششوں کا نتیجہ ہیں۔

          جہاں تک وسائل اور ان کی صلاحیت کے علم کا انکشاف ہوا ہے، وسائل کے پھیلاؤاور وسائل اور ان کی صلاحیت کے علم کاانکشاف ہوا ہے، وسائل کے پھیلاؤاور وسائل کی زندگی یا حرکت میں کس حقیقی فارمولے کا عمل دخل ہے اور اس فارمولے کے پیچھے کون سی طاقت کام کررہی ہے اور اس طاقت سے کام لینے والی ہستی کون ہے، سائنس خاموش ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مادی دور کی اس ترقی  میں براہ راست قدرت کی پیدا کردہ اشیاء کا دخل ہے۔ مثلاََ لوہا ہماری ہر ترقی میں داخل ہے۔ آپ کس  جگہ نہ پائیں گے، ریل کی پٹری میں ، جہازوں کی تہہ میں، مشینوں کے کل پرزوں میں، وائر لیس اور خلائی سیاروں میں ، اونچی اونچی بلڈنگوں ، سائنس کی بے شمار مصنوعات میں، مسجدوں ، مندروں اور گرجاؤں میں ، کون سی ایسی جگہ ہے جہاں ( کسی نہ کسی صورت میں ہی سہی) اس کے وجود سے انکار کیا جا سکتا ہو۔۔۔۔۔

                             قرآن کریم کی زبان میں بتایا گیاہے

                                      اور ہم  نے پیدا کیا لوہے کو بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ اور تحقیق اس میں انسانی دنیا کی ترقی کے لئے                                   بڑے امکانات ہیں۔

          ہماری  ذہنی کاوش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ہم لوہے یا لوہے کی قسم کی دوسری دھاتوں اور ارض پر موجود وسائل سے کس طرح فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ذہن کو جس طرح  حرکت دی جاتی رہی ہمارے سامنے  فوائد یا نقصان آتے رہے اور ہم نئی سے نئی اختراع کرنے پر قادر ہوگئے مگر انسان نے اس تلاش میں ہمیشہ کوتاہی کی، جس ہستی نے وسائل میں اتنی زبردست صلاحیتیں ذخیرہ کی ہیں وہ کون ہے اور ان وسائل کی پیدائش سے اس ہستی کا منشاء اور مقصد کیا ہے۔۔۔۔

          ہم نے یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کہ ان چیزوں کے کارآمد بنانے کی صلاحیتیں ہمارے ذہن میں کس طرح اور کہاں سے آتی ہیں۔۔۔۔ذہن اور وسائل کی صلاحیتوں کا باہمی اشتراک کن خطوط پر قائم ہے۔۔۔ایک طرف خود لوہے کی صلاحیت ہے اور دوسری طرف انسان کے ذہن میں اس صلاحیت سے حسب منشاء فائدہ اٹھانے کی صلاحیت موجود ہے۔

          قرآن کریم کا یہ ارشاد کتنا واضح ہے کہ ہم نے لوہے کو بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ اس لئے پیدا کیا کہ انسان اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ اللہ انسان کی صلاحیت کا تذکرہ فرما کر یہ بتا رہے ہیں یہ انسان قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں اور قوتوں کو کام میں لانا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہو سکتا ہے۔ آیت مقدسہ میں تفکر کے بعدیہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ موجودات میں ہر شے اپنے اندر دو وصف رکھتی ہے۔

          ایک وصف ظاہری اور دوسرا باطنی مثلاََ پانی ظاہری طور پر رقیق اور سیال مادہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کی باطنی قوت باوصف اسٹیم ہے جو بڑی سے بڑی مشین کو معمولی جھٹکے کے ساتھ حرکت میں لے آتی ہے۔ کسی بھی درخت کا کوئی بیج باطنی طور پر اپنے اندر بہت بڑا دررخت رکھے ہوئے ہے۔ کوئی بھی پھل اور اس کے اندر خوشبو اور ذائقہ۔ کائنات میں کوئی وجود اس وصف سے خالی نہیں اور ہر موجود شے دو اوصاف سے مرکب ہے۔کوئی بھی شخص جب اپنی ذہنی فکر اورکوششوں سے کسی نئی چیز کو عالم وجود میں لے آتا ہے تو اس کی پہلی اور آخری خواہش یہ ہوتی ہے کہ یہ چیز اس کے تعارف  کا سبب بن جائے ۔ یہ وصف انسان کو اللہ سے ملا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ

                   میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا، اس لئے کہ میں پہچانا جاؤں ۔ حدیث قدسی

          اللہ کے اس فرمان کے تحت ہر چیز کو وجود میں لانے والی ہستی کا منشاء اور مقصد یہ ہے کہ کائنات میں جس قدر مصنوعات ہیں وہ اس کے تعارف کا ذریعہ قرار پائیں۔ رسالت کا اقرار اور تعلیم ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان اگر اپنے باطنی وصف کے علم کو حاصل کرلے تو وہ موجودات کو وجود میں لانے والی ہستی  کو پہچان سکتا ہے۔ جب تک انسان اس مقصدکو پورا نہ کردے بے شک وہ خسارے اور نقصان میں ہے۔

                                                                      دعا گو                                                                                                                        عظیمی                                                                                                                    ۱۷ ، اکتوبر  ۱۹۸۶ء                                                                                                 1-D-1/7 ، ناظم آباد ۔کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔