Topics
السلام
علیکم ورحمتہ اللہ
یہ میرا پہلا خط ہے۔ میں پاکستان سے
باہر مقیم ہوں۔ پندرہ سال قبل میرے شوہر یہاں آئے۔اور پانچ سال کے بعد مجھےاور
بچوں کو بلوالیا۔ بد قسمتی دیکھیئے کہ یہان آنے کے کچھ عرصہ بعد شوہر کا انتقال ہو
گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بچوں کے مسقبل کی خاطر یہاں رک گئی۔ اللہ تعالیٰ
کی مہربانی ہے کہ اچھے لوگوں کا ساتھ ملا۔ بچوں کی تعلیم پوری ہوئی اور الحمد اللہ
وہ اپنی زندگی میں مصروف ہیں۔ انہیں اب میری ضرورت نہیں۔
میں ملازمت کرتی ہوں اور اللہ نے مجھے
توفیق دی ہے کہ میں رضاکارانہ طور پر مخلوق کی خدمت کرتی ہوں لیکن مصروفیت کے
باوجود تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ چھ سال پہلے میری ایک نیک شخص سے ملاقات ہوئی۔ وہ
عاجزی، دھیماپن، اللہ سے محبت اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ان کی اہلیہ کا
انتقال ہو گیا ہے۔ ہماری طبیعت اور مزاج ایک ہے لہذا مشترکہ دوستوں نے ہمیں شادی
کا مشورہ دیا۔ وہ اہلیہ کے انتقال کی وجہ سے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ انہوں نے
مجھ سے یہ کہہ کر رابطہ ختم کر دیا کہ وہ تصوف میں کسی مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں۔
میں نے پانچ سال انتظار کیا کہ وہ کب واپس آئیں گے۔ چھ ماہ پہلے دوبارہ رابطہ ہوا
۔ اہلیہ کے غم سے وہ نکل آئے تھے۔ ہم نے کم سے کم رابطہ رکھا اور شرعی حدود میں رہ
کر بات کی۔
ان صاحب نے ایک روز بتایا کہ انہوں نے
اپنے استاد سے شادی کے بارے میں مشورہ کیا۔ استاد نے ان کے سارے حالات سُن کر
فرمایا۔۔ فی الوقت شادی کرنا مناسب نہیں ہے۔ شادی حضور پاک ﷺ کی سنت ہے۔میری دعا
ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی راہیں آسان کر دے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ طریقت کی راہ کے
مسافر ہیں ۔ ہمیں حالات کو قبول کرنا چاہیئے۔مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں اس مقصد
میں کس طرح رکاوٹ ہوں؟ میں ہر قدم پر ان کا ساتھ دینا چاہتی ہوں۔ کاش اتنی محبت
میں نے اللہ سے کی ہوتی!
جب سےیہ خبر ملی ، دل بہت تکلیف میں ہے۔
اٹھتے بیٹھتے آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔ ہم کتنی تکلیف میں کیوں نہ ہوں، خود پر
ضبط کر کے سارے کام کرنا پڑتے ہیں۔ دعا کریں کہ دل کو سکون ملے، ایسا لگتا ہے دل
پھٹ جائے گا۔ ملازمت سے آتے جاتے سارا راستہ تسبیح پڑھتی ہوں، اللہ سے صبر اور راضی
بہ رضا رہنے کی دعا مانگتی ہوں مگر آنسو ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتے اور نہ دل
کو سکون ملتا ہے۔
دعا کی درخواست ہے۔ شکریہ
بہت عزیز ،
نیک دل خاتون، پیاری بیٹی،
وعلیکم
السلام ورحمتہ اللہ
روحانیت
کا پہلا سبق یہ ہے کہ گوشت پوست کا جسم اور تمام جذبات واحساسات
یعنی
دنیا کے تمام معاملات الوژن (illusion) ہیں۔
تصوف
میں وقت وہ پروگرام ہے جس پر خالق کائنات
اللہ تعالیٰ نے
تخلیقی نظام بنایا ہے۔
حضور
پاک ﷺ کا فرمان ہے
لی مع اللہ
وقت ترجمہ
: وقت میں میرا اوراللہ کا ساتھ ہے۔
اس راز کو سمجھیئے۔۔۔۔ایک دور بچپن کا ہوتا ہے، دوسرا دور
لڑکپن کا ہے، تیسرا دور جوانی کا ہے، چوتھا دور انحطاط کا اور پانچواں دور بڑھاپا
کا ہوتا ہے۔ لیکن یہ عبوری دور کہاں بنے۔۔۔۔ کس طرح عمل پذیر ہیں اور اس عارضی پروگرام
کے بعد کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ اس کا علم ہمیں نہیں ہے لیکن صوفی ازم میں وقت
بنیاد (Base)ہے۔
نہیں معلوم
پیدائش سے پہلے ہم کہاں تھے۔۔۔ یہ بھی علم
نہیں کہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کہاں چلے جاتے ہیں۔ آدمی جب دنیا میں ظاہر
ہوتا ہے تو جوانی تک ایک دور ہے۔ وہ دور گزرتا ہے تو بلوغت کا زمانہ آجاتا ہے۔
بلوغت کی اپنی صفات، ضروریات، تقاضے، برداشت، عدم برداشت، اچھائی اور بُرائی بھی
خفیف و ناتواں ہو کر جس غیب سے ظاہر ہوتی ہے اسی غیب میں چھپ جاتی ہے۔
الحمد
اللہ! آپ کا خط پڑھ کر مجھ فقیر کو ادراک ہوا کہ آپ کے اندر تخلیقی صلاحیت کے
دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے تو یہ زندگی میں ایک تقاضا ہے اور
اس تقاضے میں پوری زندگی کے نشیب و فراز کامیابی، ناکامی، اظہار، اطمینان اور بے
سکونی سب لوازمات ہیں۔ آپ کے اندر ہمدردی اور تحفظ کے جذبات اللہ کی طرف سے اور
رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے احسن صلاحیت کی نشان دہی ہے۔
شادی حضور
پاک ﷺ کی سنت ہے۔ اس کو کون منع کر سکتا ہے، حالات جیسے ہی مناسب ہوں شادی کر لینی
چاہیئے۔ نہایت عزیز بیٹی! آپ خود وہ راستہ اختیار کریں جس راستے پر وہ صاحب چل رہے
ہیں اور روحانی مکتبہ فکر سے منسلک ہو کر روحانی علوم کی افہام و تفہیم کا سلسلہ
شروع کریں۔ انشاء اللہ راستے کھلیں گے۔ اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا
ہے۔ الحمد اللہ آپ نیک بخت ہیں۔ آپ کے اندر
روحانی علوم جاننے کی صلاحیت موجود ہے بس آبیاری کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے ، کثرت سے وضو بے وضو ”یاحی یا
قیوم“ کا ورد کریں۔ رات سونے سے پہلے سفید لباس پہن کر ۱۰۱ مرتبہ درود خضری پڑھیں۔
صلی
اللہ تعالیٰ علی حبیبہ محمد وسلم
سیرت طیبہ
ﷺ کا فہم و فراست کے ساتھ مطالعہ کریں۔
اللہ
تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور آپ کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آمین
دعاگو
عظیمی
۵
اکتوبر ۲۰۱۹ء
ماہنامہ
قلندر شعور، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔