Topics

شمع علیم صاحبہ

اللہ کے جن بندوں کو نور نبوت کا علم عطا ہوا ہے وہ واقعہ شق القمر کی روحانی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ انسان ستر ہزار پرت کا مجموعہ ہے۔ جب اللہ کے قانون کے مطابق کوئی انسان عالم سماوات سے عالم عنصری پر آتا ہے تو اس کے اوپر ایک پرت ایسا غالب آجاتا ہے جس میں سرکشی، بغاوت، عدم تعمیل، کفران نعمت، ناشکری، جلدبازی، شک، بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ یہی وہ ارضی زندگی ہے جس کے بارے میں قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ پھر پھینک دیا، اسفل سافلین میں۔

انبیاء چونکہ نوع انسانی کا جوہر ہیں ان کے اوپر اللہ کی خصوصی نعمتیں، عنایتیں اور نوازشیں ہوتی ہیں۔ ان میں ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انبیاء کے دل کو اسفل خامیوں سے پاک کرکے دنیاوی لالچ اور حرص و طمع سے بے نیاز کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں انبیاء کے قلوب ایمان، ایقان، علم و دانش، عرفان و آگہی اور انوار الٰہیہ سے منور ہوجاتے ہیں۔ ہدایت، معرفت، عظمت، اخلاص، رحمت، علم و حکمت اور نبوت کے لئے ان کے دلوں کو کشادہ اور وسیع کردیا جاتا ہے۔

نور نبوت ﷺ کے زیراثر روحانی علم مشاہداتی علم ہے۔ اس علم کی روشنی میں انسان کی تخلیق کے بنیادی عناصر نور اور روشنی سے مرکب ہیں۔ دنیا چھ سمتوں پر قائم ہے۔ یہ چھ سمتیں روشنی اور نور کے ہالے میں بند ہیں۔ چھ سمتیں دراصل تین یونٹ ہیں اور ہر یونٹ کے دو رُخ ہیں۔

روشنی مرکب…… روشنی مفرد

روشنی مطلق…… نور مرکب

نور مفرد…… نور مطلق

اسفل زندگی روشنی مرکب ہے اور اس کا مخزن پیٹ میں ناف کے مقام اور سینہ میں قلب کی جگہ ہے۔

اللہ نے اپنے محبوب ﷺ کے اوپر چونکہ تمام نعمتیں پوری کی ہیں اور ان کے اوپر دین کی تکمیل فرمائی ہے اس لئے اسی عمر میں جب شعور اسفل زندگی کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے اور اسفل زندگی میں دلچسپی لینا شروع کرتا ہے، اللہ نے دو فرشتے بھیجے اور ننھے محبوب ﷺ کے اسفل خیالات کے پیٹرن کو خالی کرکے اعلیٰ علیین خیالات سے بھردیا۔ قرآن فرماتا ہے۔

انوار الٰہی کے ذریعہ محمد ﷺ کا سینہ مبارک اطمینان اور سکون سے بھردیا گیا اور اللہ پاک نے سچائیوں، نیکیوں اور پاکیزہ خیالات کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے حضور قلب عطا فرمایا۔ (سورہ انشراح)

تطہیر قلب و جان اور خاص نگرانی و نگہبانی کے ساتھ ننھے محبوب ﷺ کی پرورش اور تربیت ہوتی رہی۔ دنیا کے نشیب و فراز سے وقوف حاصل کرکے ننھا محبوب سچائی، پاکیزگی اور یقین کے پیکر کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔

پاکیزگی اور تقدس کی یہ روشن قندیل محمدﷺ اپنے دادا حضرت ابراہیم ؑ کی طرز فکر کے مطابق اللہ کی تلاش میں غور و فکر کے لئے غار حرا میں تشریف لے گئے۔ حضرت جبرائیل اللہ کے اس تربیت یافتہ بندے کے پاس آئے اور کہا پڑھ اپنے رب کے حکم سے۔ رسول اللہ ﷺ کے حالات زندگی ہمیں اس بات پر تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ایک نبی ﷺ اور نبیوں میں خاتم الانبیاء ﷺ اور باعث تخلیق کائنات ﷺ کی تربیت کا دور بچپن سے شروع ہوا ہے۔

پانچ برس کی عمر میں روح القدس فرشتے کے ذریعے قلب مبارک کی صفائی اس بات کی نشاندہی ہے کہ حضور ﷺ کا ہر اُمتی اس قانون کا پابند ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں اس قانون کا پابند رہ کر اپنی تطہیر اور پاکیزگی قلب کا اہتمام کرے تاکہ اسفل حواس شعوری زندگی پر غالب نہ آئیں اور بچے کے اندر پیغمبرانہ طرز فکر مستحکم طریقے پر منتقل ہوجائے۔

جب پیغمبرانہ طرز فکر پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سورج زمین سے نو کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔ جب کوئی شخص سورج کو دیکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہر آدمی کے اندر نو کروڑ میل دور دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔

خاتم النبیین ﷺ نے پانچ برس کی عمر میں حضرت جبرائیل کو دیکھا۔ پھر غار حرا میں مراقبہ فرمایا اور وہاں حضرت جبرائیل قرآن لے کر نازل ہوئے۔ قرآن پاک فرماتا ہے۔

ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ لیلۃ القدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔ اترتے ہیں اس میں ملائکہ اور روح اپنے رب کے حکم سے۔ یہ رات رہتی ہے طلوع فجر تک۔

روحانی قانون کے مطابق لیلۃ القدر میں حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہوجاتی ہے اور جب حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہوجاتی ہے تو نظروں کے سامنے فرشتے اور جبرائیل ؑ آجاتے ہیں۔ نبی برحق ﷺ کی یہ فضیلت ہے کہ عام انسانی حواس کی رفتار سے حضور نبی مکرم ﷺ کی ذہنی صلاحیت ساٹھ ہزارگناسے زیادہ ہے۔

آیئے دعا کریں کہ ہمارے اندر بھی نبیوں کی طرز فکر پیدا ہو اور ہم بھی اپنے آقا ﷺ کے نور نبوت سے سرفراز ہو کر اپنی ذہنی رفتار تیز کریں تاکہ امتی ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہمارے نبی ﷺ کا ورثہ منتقل ہوجائے۔ آمین یا رب العالمین۔

 

دعاگو

عظیمی

۱۰، اکتوبر، ۱۹۸۰ء

1-D-1/7، ناظم آباد، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔