Topics
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
مرنے کے
بعد زندگی کی تشریح کی جائے تو
کہا جائے گا کہ ۔۔۔۔ روح نے مٹی کے ذرات سے بنائے ہوئے جسم سے رشتہ منقطع کر لیا
ہے اور دوسرے عالم میں وہاں کی فضا کے مطابق ذرات یکجا کر کے ایک نیا جسم تخلیق کر
لیا ہے۔
عالم اعراف
میں دنیا کی آبادی سے برابر جو لوگ منتقل ہوتےرہے ہیں اور ہوتے رہیں گے دراصل یہ
اس عالم سے اُس عالم میں روح کی منتقلی ہے۔ عربی زبان میں اسی لئے اُس عالم میں
جانے کا نام انتقال ہے یعنی اس عالم سے اُس عالم میں آدمی منتقل ہو گیا۔
روح ہمہ وقت متحرک و سرگرم رہتی ہے۔ اس کی
اپنی صفات میں سے ایک مخصوص صفت یہ کہ جب تک یہ اپنے لباس سے کلی طور پر قطع تعلق
نہیں کر لیتی اس کی حفاظت کرتی ہے۔
ایک آدمی
سویا ہوا ہے۔۔۔۔ نیند بہت گہری ہے
کراچی میں
سویا ہوا آدمی امریکہ کے بازاروں میں گھوم پھر رہا ہے۔
اس کے سوئی
چبھودی جاتی ہے۔
روح امریکہ
سے چل کر فوراً اپنے لباس کی پاسبانی کے لئے موجود ہوتی ہے۔ سوئی چبھنا۔۔۔ امریکہ
سے روح کا کراچی میں آجانا۔۔۔ اتنا قلیل وقفہ ہے کہ جس کی پیمائش ممکن نہیں ہے۔ اس
پیمائش کو آپ لمحہ کا کھربواں حصہ کہہ سکتے ہیں اور لمحے کا کھربواں حصہ کہنا
پیمائش کے دائرے میں نہیں آتا۔
مقصد یہ کہ
روح کے لئے زمان و مکان کوئی چیز نہیں ہے لیکن جب یہ اپنے لئے مادی جسم بناتی ہے
تو اس کو زمان و مکان میں بند رکھنے کے لئے پوری حفاظت کرتی ہے۔
دعاگو
خواجہ
شمس الدین عظیمی
جون ۱۹۹۹ء
مرکزی
مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔