Topics

پروفیسر ظفر علی (کراچی)

آپ کی خدمت میں ذہنی کشمکش سے مجبور ہو کر ایک مختصر تجربہ پیش کر رہا ہوں جس میں چند سوالات ہیں اُمید ہے کہ آپ میری اس تشنگی کو مختصر جواب سے دور کر دیں گے اور بہت سے قارئین استفادہ کریں گے۔

          ہمیشہ سے روئے زمین پر شیطانی قوتیں غالب رہی ہیں یا پھر ان کے اثرات زیادہ محسوس محسوس کئے جاتے رہے ہیں۔ دنیا میں  حساس آدمیوں کی تعداد زیادہ رہی ہے یا بے حس آدمیوں کا غلبہ نمایاں رہا ہے۔کیا حساس شخص دنیا اور آخرت دونوں جگہ پر بے چینی میں مبتلا رہے گا؟

          حساس طبیعت لوگ انفرادی یا اجتماعی خود کشی سے ملتے جلتے فعل کیوں کرتے ہیں اور اس کا زمہ دار کون ہے آیا خود یا معاشرہ یا حکومت وقت۔ قیامت کے روز کس سے باز پرس ہوگی؟۔

پروفیسر ظفر علی (کراچی) 

         

سب جانتے ہیں کہ گھپ اندھیرے میں دیا سلائی جلائی جائے تو اندھیرا غائب ہو جاتا ہے اور اس کے برعکس دن کے اجالے میں اگر اندھیرا کیا جائے تو بہت زیادہ اہتمام کی ضرورت پڑتی ہے مثلاً کمرے کی کھڑکیاں بند کر کے ان کے اوپر پردہ ڈالیں گے۔ روشن دان کو بند کریں گے۔ دروازوں کی درزوں پر کاغذ چپکائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔اس کا مفہوم یہ نکلا کہ اندھیرے کو دور کرنے کے لئے اتنا اہتمام کرنا نہیں پڑتا ہے۔

          دنیا میں رحمانی قوتوں کا عمل دخل ہے۔ نوع انسانی کی تاریخ بتاتی ہے۔ شیطانی اور تخریبی قوتوں نے جب سر ابھارا ایک حد پر جا کر اس طرح ختم ہو گئیں کہ زمین پر صرف ان کا نشان باقی رہ گیا۔ شد اد، نمرود،فرعون جیسی بڑی قوتوں  کا حشر تاریخ میں موجود ہے۔

ابھی حال ہی میں ہمارے سامنے شہنشاہ ایران کی مثال ہے۔ تمام تر قوتوں کے باوجود بادشاہ کو اپنے وطن میں قبر بھی نصیب نہیں ہوئی۔ اور وہ مفلوک الحال مسافر کی طرح مر گیا۔ لیبیا کے صدر کی مثال بھی سامنے کی خبر ہے اس نے کئی ٹن سونا چھوڑا ہے اور جس طرح موت واقع ہوئی ہے وہ بھی قابلِ عبرت ہے۔

          حساس ہونا بہت اچھی بات ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حساس ہونے کی نوعیت کیا ہے۔اگر حساسیت تعمیر کے لئے ہے تو اس دنیا اور مرنے کے بعد کی دنیا اس کے لئے روشنی ہے اور اگر تخریب کے لئے  کوئی شخص حساس ہے یعنی اس کا ذہن صراطِ مستقیم سے ہٹا ہوا ہے تو یہ حساسیت اس بندہ کے لئے تاریکی ہے۔ روشنی کو تعمیر اور تاریکی کو تخریب سمجھا جاتا ہے۔ تعمیر رحمانیت ہے اور تخریب شیطنیت ہے۔۔۔۔حساس طبیعت آدمی کے اوپر جب مایوسی کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ خود کو معاشرہ پر بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔۔۔اور مایوسی اسے پہلے نااُمیدی کے گہرے گڑے میں گرا دیتی ہےاور پھر دفن کرنے پر مائل ہوجاتی ہے۔ خودکشی وہی آدمی کرتا ہے جو کچھ نہیں کرسکتا۔ جو زندگی (صلاحیتوں) سے مایوس ہو جاتا ہے اور جس کے اندر اپنی ذات کا ادراک ختم ہو جاتا ہے۔

          مذہب نااُمیدی مایوسی کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ نااُمیدی سے نکل کر ہاتھ پیر ہلائے جائیں۔۔۔ جو لوگ عملی جدو جہد کرتے ہیں یقین اور عزم کے ساتھ کوشش کرتے ہیں ۔۔۔وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور خود کشی جیسا  گھناؤنا عمل نہیں کرتے۔ اللہ نے فرمایا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی

                                                                                      دسمبر  ۲۰۱۳ ء

                                                                                      ماہنامہ قلندر شعور، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔