Topics

شبیر احمد (ساہیوال)

گرامی قدر خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

کسی بھی روحانی سلسلہ میں صاحب سلسلہ کے ابتدائی مریدین پر عنایات و نوازشات کی بارش کچھ زیادہ ہوتی ہےاور مرشد سے علم حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس زیادہ وقت ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دس پندرہ سالوں بعد بیعت ہونے والوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی مرشد کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے۔ اگر ایسے مریدین کی باطنی نگاہ بیدار ہونے سے قبل مرشد عالم بالا تشریف لے جائیں تو پھر ان مریدین کا مستقبل کیاہوگا؟

          کیا آخرت کی زندگی میں منتقل ہو جانے کے بعد بھی مرشد کریم ان کی تربیت کرتے رہتے ہیں یا مرشد انہیں کسی کے سپرد کر دیتے ہیں یا پھر ایسے مرید بے یارو مدد گار ہی رہ جاتے ہیں؟

          مزید برآں دنیاوی زندگی میں جب مرید کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ براہ راست اپنے مرشد سے رجوع کرتا ہے۔ مرشد کے وصال کے بعد مرید کس سے رجوع کرے گا؟

شبیر احمد     (ساہیوال)  

 

          وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

          ابتدائی دور میں چونکہ شاگرد کم ہوتے ہیں اس لئے استاد کی توجہ ان پر زیادہ ہوتی ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگوں کی تعداد موجود رہتی ہے جو مرشد یا استاد کے قریب رہتے ہیں۔ اس قربت میں شاگردوں کے ذوق و شوق کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔

          کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شاگرد یا مرید  استاد کے پاس برسوں قیام کرتا ہے اور اس کی زندگی میں تبدیلی تو آتی ہے لیکن۔۔۔ کوئی ایسی انقلابی تبدیلی نہیں آتی جس کی بنیاد پر وہ استاد کی طرح دوسرے لوگوں کو علوم منتقل کر ے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعد کے آنے والے لوگ بہت جلدی تعلیم و تربیت دینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ دنیاوی علم و ہنر ہوں یا روحانی اقدار کی آبیاری کی جائے، دونوں میں ذوق و شوق کا عمل دخل کار فرما ہے۔ جتنا ذوق و شوق شاگرد کے اندر ہوتا ہے اسی مناسبت سے وہ استاد کے قریب ہو جاتا ہے۔ اس میں ابتدائی ، درمیانی یا عمر کے آخری دور سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

          اسی طرح کا ایک سوال میں نے اپنے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ سے کیا تھا۔ جو کچھ انہوں نے فرمایا وہ آپ کی معلومات میں اضافہ کے لئے پیشِ خدمت ہے۔۔ ایک پیر صاحب کے دو مرید تھے۔ دونوں اتنے قریب تھے کہ گھر آنا جانا، ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، ان کی اولاد اپنی کی طرح تھا۔ ان میں سے ایک نے چند سال کے بعد کہنا شروع کر دیا کہ مجھے میرا روحانی حصہ دیا جائے۔ پیر صاحب اسے تسلی دیتے رہے لیکن جب اُس نے بہت زیادہ  اصرار کیا تو انہوں نے توجہ کی اور رخصت کر دیا۔ دوسرا مرید بدستور قربت میں رہا۔

          خداکا کرنا ایسا ہوا کہ مرشد صاحب اس دنیا سے اُس دنیا میں تشریف لے گئے۔ مرید نے سوچا کہ میری حیثیت بڑے بھائی کی ہے لہذا مجھے اپنے بہن بھائیوں کی پرورش میں اپنی روحانی ماں کا ساتھ دینا چاہیئے۔ سالوں گذر گئے ۔ پیر و مرشد صاحب کے بیٹے او بیٹیوں کی شادی سے فارغ ہو کر انہوں نے اماں سے درخواست کی۔۔۔ ماں جی! مجھے اجازت دیں۔ اجازت لے کر مزار شریف پر حاضر ہوئے اور سلام دعا کر کے رخصت ہو گئے۔ دوبارہ روضہ کے اندر گئے اور واپس آگئے۔

          تیسری بار پھر یہ سوچ کر کہ اب پتہ نہیں کب آنا ہوگا یا نہیں آنا ہوگا، اپنے مرشد کی قبر سے لپٹ کر رونے لگے۔ روتے روتے اس عالم سے اُس عالم میں منتقل ہوگئے۔ دیکھا کہ مرشد مرید کو سینہ سے لگا کر پیشانی اور آنکھوں کو بوسہ دے رہے ہیں۔ جب اُس عالم سے اس عالم آئے تو پیر و مرشد کے رنگ میں رنگین تھے۔ شاداں و فرماں مزار سے باہر آئے اور اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں پیر بھائی کا شہر پڑتا تھا۔ دل چاہا کہ ملاقات کر کے جاؤں ۔ شہر پہنچے تو ہنگامہ برپا دیکھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک بزرگ اناپ شناپ بولتے ہیں جس کی وجہ سے شرعی عدالت نے انہیں سنگساری کی سزا دے دی ہے۔ یہ اناپ شناپ بولنے والے بزرگ ان کے پیر بھائی تھے۔علیک سلیک ہوئی اور کہا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو یہ دراصل ان رازوں کا اظہار ہے جن کو کبھی ظاہر نہیں کیا جاتا۔ جب وہ کسی طرح قائل نہ ہوئے، یہ صاحب عدالت شرعیہ کے جج کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ اگر آپ سزا میں ایک ہفتہ کی تاخیر کر دیں تو ایک بندہ کی جان بچ جائے گی۔ دوبارہ اپنے پیر بھائی کے پاس گئے اور آہستہ آہستہ ان کی بیدار روحانی صلاحیت پر وہ آگیا پھر ان کو حاکم کے سامنے پیش کر دیا۔ حاکم کے دربار میں جب اس مرید کو الزامات کی فہرست سنائی گئی جن بنا پر سنگساری کی سزا دی گئی تھی تو مرید نے ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ نتیجہ میں ان کی سزا معاف ہوگئی اور پیر بھائی اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔

          یہ بات کہ مرشد کےانتقال کے بعد فیض جاری و ساری رہتا ہے، اس کی تصدیق سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، جب قبرستان جاؤ تو ” اسلام علیکم اہلِ قبور“ کہو۔ قبرستان میں رہنے والے تمہارے سلام سنتے ہیں اور تمہیں جواب  بھی دیتے ہیں، جو تم نہیں سنتے۔

          اس فرمان سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں روح سنتی بھی ہے اور بولتی بھی ہے۔جب عام آدمی کی روح بولتی اور سنتی ہے  تو روحانی بزرگوں کا بولنا اور سننا، آنے والوں کے لئے دعا کرنا، ان کو فیض پہنچانا ثابت ہو جاتا ہے۔

          عام روح جب سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہتی ہے تودراصل وہ قبرستان آنے والے بندے کے لئے دعائے خیر کرتی ہے   دعائے خیر کو یقیناً کسی نہ کسی درجے  میں فیض کا مقام حاصل ہے۔ لہذا مرشد کے وصال کے بعد مرید کے ذوق و شوق کے مطابق رہنمائی بھی ملتی ہے اور فیض بھی جاری رہتا ہے۔ مرشد کا مقام یہ ہے کہ اگر اللہ کا دوست ہے تو اللہ اس کی درخواست کو قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

          ”میں اپنے بندہ کو دوست رکھتا ہوں اور میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں

          ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ کسی چیز کو پکڑتا ہے۔ (صحیح بخاری)

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی

                                                                                      مارچ  ۱۹۹۸ء

                                                                                      مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔