Topics

رشید صاحب

محترم بھائی

رشید صاحب  ۔۔۔ ۔۔وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب اصل سے واقفیت ہو، اصل سے    

          وقوف کے لئے جزئیات کا پورا پورا علم ہونا ضروری ہے۔

          اس وقت زیر بحث انسان اور اس کا باطنی وصف ہے۔ یہ تجسس فطری ہے کہ انسان کیا ہے۔۔۔۔۔دنیا میں آنے سے پہلے کہاں تھا، اس دنیا تک پہنچنے کے لئے کن منازل سے گزرنا پڑا اور پھر وقت معینہ کے بعد کس دوسری منزل کی طرف لوٹ جانے پر مجبور کیوں ہے۔۔۔۔نہ خود پیدائش پر مرضی کا انحصار ہے اور نہ کسی طرح موت پر دسترس رکھتا ہے ۔ آخر وہ کون سا نظام ہے جس کی گرفت اتنی مضبوط اور مستحکم ہے کہ کائنات کی ہر شے مقید اور محکوم نظر آتی ہے۔ اس کا حل قرآن کریم کی تعلیم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

                   کن ۔۔۔۔۔یعنی ایک ہستی نے فرمایا عالم وجود میں آجا جیسا

                     کہ میرے ارادہ میں ہے۔ فیکون ۔۔۔۔پس وہ کائنات 

                       موجود ہوگئی، سوچے سمجھے پروگرام اور منشاء کے مطابق۔

                       تخلیقات ہم سے اور ہمارے پروگرام سے بے خبر

                       تھیں اور ان پر حیرانی کا عالم طاری تھا۔

                       جب ہم نے چاہا کہ حیرانی ختم ہوجائے تو ہم نے فرمایا

                       ۔۔۔۔ الست بربکم۔اے موجودات ! اس بات کا عہد کر کہ

                       میں تیرا رب ہوں۔۔۔۔قالو بلیٰ۔۔۔۔موجودات یا کائنات   

                       اور انسان نے کہا۔۔۔۔جی ہاں ہم اس بات کا عہد کرتے       

                       ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔

          عالم موجودات میں جس نے ربانیت اور وحدانیت کا عہد کرکے مخلوق ہونے کا اعتراف کیا تھا، وہی اصل انسان اور اس کا باطنی وصف ہے۔ واضح مطلب یہ ہے کہ انسان ازل میں منشاء الٰہی پورا کرنے کا اقرار اور عہد کرچکا ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ انسان اپنے عہد کو کہاں تک پورا کرتا ہے اسے مختلف منازل سے گزار کر باطنی وصف کے ساتھ ایک اور ظاہری وصف (جسم) دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا اور ساتھ ہی بے شمار وسائل (مخلوقات) بطور نشانی پھیلا دئیے تاکہ انسان تفکر کے ذریعہ اس بات کو سمجھ سکے کہ جب اس کے استعمال کی کوئی بھی چیز (وسائل) اس قانون سے باہر نہیں کہ ہر شے دوا وصاف سے مرکب ہے تو پھر انسان اس قانون سے مستثنٰی کیسے ہوسکتا ہے۔

          جس طرح درخت کا ہر بیج مائیکروفلم ہے اسی طرح انسان کا مادی جسم باطنی صلاحیتوں کے تابع ہے جنہیں ہم روح کی صفات سے تعبیر کرتے ہیں۔ روح کی حرکت ہی دراصل انسانی حرکات و سکنات کا سبب بنتی ہے اگر کسی وجہ سے یہ حرکت معطل ہو جائے تو زندگی پردہ میں چھپ جاتی ہے۔

          مشاہدہ یہ ہے کہ جسم ایک وقت معینہ کے بعد معطل اور بے کا ہوجاتا ہے۔ حالانکہ جسمانی طور پر اس میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ہر فرد جسم کے اس تعطل کو موت کا نام دیتا ہے یعنی یہ کہ جسم کو حرکت دینے والی شئے نے اس جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا ہے۔ یہی وہ باطنی رخ یا انسان کا باطنی وصف ہے جس کو ہم روح کہتے ہیں۔

          حقائق یہ ہیں کہ پیدائش کے بعد انسان کا تعلق تین نظاموں سے ہے۔ پہلا نظام وہ ہے جہاں اس نے خالق حقیقی کو دیکھ کر اس کے منشاء کو پورا کرنے کا عہد کیا ۔ دوسرا نظام وہ ہے جس کو ہم عالم ناسوت، دارالعمل یا امتحان گاہ کہتے ہیں اور تیسر نظام وہ ہے جہاں انسان امتحان کی کامیابی یا ناکامی سے با خبر کیا جاتا ہے۔

          کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی ذات اور اس وصف کا عرفان تلاش کرے جس نے اللہ کے روبرو عہد کیا تھا کہ وہ اللہ کے منشاء کو پورا کر کے اللہ کا عرفان حاصل کرے گا۔ رسالت و نبوت اس تعلیم کو تصوف یا طریقت کا نام دے کر ہمارے سامنے ان الفاظ میں پیش کرتی ہیں۔

                                      من عرف نفس فقد عرف ربہ

          حقیقی مقصد ( عرفان الٰہی ) وہی شخص پا سکتا ہے جو اپنی ذات، باطنی رخ یا روح کے عرفان سے واقف ہو اور یہ جانتا ہو کہ اگر عرفان الٰہی نہ ہو تو وہ انسانیت کے دائرہ میں نہیں ہے۔

                                                                            دعا گو

                                                                      خواجہ شمس الدین عظیمی                                                                                                            ۱۳ ،  مارچ  ۱۹۸۵ء

                                      1-D-1/7 ، ناظم آباد ۔ کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔