Topics

ج-ب(اسکاٹ لینڈ)

مرشد کریم ابا جی کو دل کی گہرائیوں سے سلام۔۔۔

          السلام علیکم ورحمتہ اللہ

          مرشد کریم اپنی ہر بات اور ہر عمل سے ہمیں اللہ کے قریب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ آپ نے ہمیں سکھایا کہ محبت وہ ہے جو اللہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے۔ اللہ اپنی مخلوق کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے، انہیں شک اور وسوسوں یعنی ظلمت سے نکالتا ہے اور محبت سکھاتا ہے۔

          محبت۔۔۔۔۔ یقین ہے۔۔۔۔ میں اس محبت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

          آپ کی بیٹی

      ج-ب(اسکاٹ لینڈ)            

         

بہت محترم بیٹی

          وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          ذہن ایسی زمین ہے جو ہمہ وقت اپنے بہن بھائی ،اللہ کی مخلوق کی فلاح چاہتی ہے۔ ایسی زمین ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بلا امتیاز خدمت کرتی ہے۔ زمین یہ نہیں دیکھتی کہ کون کون کیا ہے۔ صرف زمین کے ذہن میں خدمت کا جذبہ ہے جو اسے ماں کی طرح خدمت کرنے پر متوجہ رکھتا ہے۔ دھرتی ماں مخلوق کا دستر خوان ہے۔ وہ اس دستر خوان پر ہر مخلوق کی مناسبت سے غذا فراہم کرتی ہے۔ دھرتی ماں ہر جگہ ماں ہے۔ مخلوق کی پیدائش میں اللہ کی لگائی ہوئی ڈیوٹی پوری کرتی ہے۔ اصل ماں دھرتی ماں ہے۔ یہ دنیا رنگوں کی دنیا ہے۔ دیکھیئے سیب، انار، مختلف پھلوں کی بیلیں، چاول ، گندم،مختصر یہ کہ زندہ رہنے کے لئے غذائیں جس میں پانی بھی شامل ہے، سب اللہ کے حکم سے زمین فراہم کرتی ہے۔

          ہم زمین سے پیدا ہوتے ہیں اور ان وسائل کے تعاون سے زندہ رہتے ہیں۔ ہوا، پانی، آکسیجن قسم قسم کی گیسز۔۔۔۔بارش، سمندر، دریا، ندی نالے سب زمین کی معاون ہیں۔ جب کوئی اپنے آپ پر اپنی ہستی پر، اپنے وجود پر غور کرتا ہے تو ہر اعتبار سے محفوظ رکھنے کے لئے زمین اپنے اندر اس طرح سما لیتی ہے کہ ہماری بے حرمتی نہیں ہوتی۔

          ہم سب جتنی بھی آدم زاد مخلوق ہیں یا دیگر مخلوقات ہیں، زمین سب کے عیب چھپا کر اپنے وجود کو اپنے اندر سما لیتی ہے۔ جب آدمی بدھی سے کام لیتا ہے تو بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہم سب ایک باپ آدم اور ایک ماں حوا کی اولاد ہیں۔ حوا آدم کی اولاد قبائل میں بٹ گئیں۔ جو قبیلے سورج کی شدت میں آباد ہوگئے ان کے رنگ مشکی ہو گئے۔ جو قبیلے ٹھنڈی جگہ آباد ہوگئے وہ سرخی مائل ہوگئے۔ زمین کے جس خطے میں سورج کی شعاعیں پڑیں وہاں کے نقش بدل گئے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم سب آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ ایک ماں باپ آدم و حوا ہیں۔ کروڑوں ماں باپ آدمی کے جدامجد آدم اور حوا ہیں۔

          عزیز بیٹی! زمین دھرتی پر کتنے ہی آدم زاد یا مرد عورتیں آباد ہیں وہ سب ایک کنبہ، برادری یا قبیلہ ہیں۔ قوم کی اصلاح کرنے والے جتنے بھی حضرات و خواتین زمین پر آئے انہوں نے اصلاح کی، وہ بھی آدم کی اولاد ہیں اور جو لوگ ان کی بات سن کر پیغمبروں کے نقش قدم پر چلے وہ بھی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ سعادت مند اولاد خوش نصیب ہے اور دوسری اولاد۔۔۔۔۔

          اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے اور آپ کے شوہر کو، بچوں کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا فرمائے۔

          آپ نے مجھ عاجز فقیر کو باپ لکھا بیٹی بن کر۔۔۔۔۔ خط میں دلی جذبات کا اظہار کیا، میں آپ کے لئے دعاگو ہوں اور چاہتا ہوں  ہر آدم زاد کا فرد اس بات کو سمجھے کہ ہم ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ آدم و حوا کی اولاد کثرت سے زمین پر تقسیم ہو گئی اور دھرتی ماں نے رہائش کے لئے مفت جگہ فراہم کی۔

          اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے ۔ پیغمبران کرام نے مخلوق کے لئے دو راستوں کی نشان دہی کی۔ ایک راستہ وہ ہے کہ جس میں عافیت ہے، آرام ہے، آسائش ہے، میٹھی نیند ہے،سکون ہے، خدشات و خطرات نہیں ہیں۔ اور دوسرے راستے میں خدشات ، پریشانی، مصیبت، دماغی، الجھن، بے یقینی، دلدل ، کانٹے مختصر یہ کہ دوزخ کی عذاب ناک زندگی اور سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ اللہ سے دوری۔ اللہ نے اپنے پیغمبر دنیا میں بندوں کے لئے بھیجے کہ مخلوق کے لئے سیدھے راستے کی راہ نمائی فرمائیں تا کہ لوگ عذاب ناک زندگی سے محفوظ ہوں۔

          اپنے شوہر کو بہت سلام، بہت دعا اور بہت پیار، بچوں کو دعائیں

          آپ کا روحانی استاد

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی

                                                                                      جنوری ۲۰۲۰ء

                                                                                      ماہنامہ قلندر شعور، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔