Topics

ظفر (ویتنام)

جناب خواجہ صاحب

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاۃ

شاہ عبدالعزیز محدث، شاہ ولی اللہ، حضرت حاجی امداد اللہ مکی، مولانا احمد رضا خان، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہم سب کی تعلیمات یہ ہیں کہ بندہ کا اگر اللہ سے تعلق ہے تو اس کی نجات ہے اللہ سے  تعلق نہیں ہے تو سوائے خسارے کے کچھ حاصل نہیں۔

خسرالدنیا والآخرۃ ذلک ھوالخسران المبین O الحج: ۱۱

ارکان اسلام نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی حکمت پر غور کیا جائے تو یہی سمجھ میں آتا ہے ارکان اسلام پورے کرنے کا منشاء یہی ہے کہ اللہ سے تعلق قائم ہوجائے، اس سلسلہ میں رہنمائی فرمایئے۔

ظفر (ویتنام)

 

ترقی کے دو رخ ہیں۔ ترقی اور عزت و توقیر کی ایک حالت یہ ہے کہ کسی قم یا کسی فرد کو دنیاوی عزت اور دنیاوی دبدبہ اور دنیاوی شان و شوکت نصیب ہو۔ ترقی کا دوسرا رخ جو فی الواقع حقیقی رخ ہے۔ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ظاہری حالت میں رہتے ہوئے غیب کی دنیا میں جس فرد یا قوم کی رسائی اللہ کے نظام تک ہوتی ہے دراصل وہی اصل ترقی، عزت اور شان وشوکت ہے۔

ان دو رخوں پر غور کیا جائے تو یہ بات پوری طرح سامنے آجاتی ہے، بے شک وہ قومیں جنہوں نے علوم میں تفکر کیا ہے اور جدوجہد کے بعد نئی نئی اختراعات کی ہیں وہ دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ترقی یافتہ قومیں سکون اور اطمینان سے محروم ہیں۔ قلبی اطمینان اور روحانی سکو ن سے قومیں اس لئے محروم ہیں کہ یہ حقیقت سے بے خبر ہیں یا حقیقی دنیا سے ابھی ان کا تعلق پیدا نہیں ہوا۔ حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہوتا۔ حقیقت پر کبھی خوف اور غم کے سائے نہیں منڈلاتے، حقیقی دنیا سے متعارف لوگ ہمیشہ پرُسکون رہتے ہیں، ان کے اندر فساد نہیں ہوتا۔ موجودہ دور ترقی کا دور ہے لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ جس قدر صعوبتیں، پریشانیاں، بے سکونی اور ذہنی انتشار سے نوع انسانی دوچار ہوئی ہے، اس کی نظیر پہلے کے دور میں نہیں ملتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ترقی کے پیچھے مادی اور ذاتی منفعت ہے۔ اگر یہ ترقی فی الواقع نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی تو قوموں کو اطمینان و سکون نصیب ہوتا۔

انفرادی یا اجتماعی ذہن کا تعلق طرز فکر سے ہے۔ طرز فکر میں اگر یہ بات ہے کہ ہماری کوشش اور اختراعات سے نوع انسانی اور اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے تو یہ طرز فکر انبیاء کی طرز فکر ہے اور یہی طرز فکر اللہ کی طرز فکر ہے۔ اگر انسان اللہ کے اوپر فی الواقع یقین رکھتا ہے تو نئی نئی مصیبتوں، پریشانیوں، ذہنی انتشار اور عدم تحفظ کے احساس سے محفوظ رہتا ہے۔ پرُسکون رہنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان کی سوچ اور انسان کی طرز فکر اس طرز فکر سے ہم رشتہ ہوجائے جو پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرز فکر ہے۔

ہم جب زمین کے اوپر اور زمین کے اندر موجودات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے بے شمار وسائل پیدا کئے ہیں، لیکن ان وسائل میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں  ہے جس کا تعلق اللہ کی کسی ضرورت سے ہو۔ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ باوجود یہ کہ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے وہ اپنی مخلوق کے لئے تسلسل کے ساتھ وسائل فراہم کررہا ہے۔

چونکہ انسان وسائل کا محتاج ہے، اس لئے وہ وسائل سے اس طرح بے نیاز نہیں رہ سکتا کہ ہر چیز سے اپنا رشتہ منقطع کرلے لیکن یہ طرز فکر اختیار کرسکتا ہے کہ وسائل پوری نوع انسانی کے لئے ہیں، جس طرح میں ان سے فائدہ اٹھاتا ہوں اس ہی طرح سب کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔ طرز فکر حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان جس طرز فکر کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس سے ذہنی قربت ہو اگر انسان اللہ کی طرز فکر کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اللہ والوں کے پسندیدہ تمام مشاغل اپنانے ہوں گے۔ انسان جس جس مناسبت سے ان مشاغل اور عادات کو اختیار کرلیتا ہے اس مناسبت سے طرز فکر بدل جاتی ہے اور تعلق باللہ قائم ہوجاتا ہے۔

پیغمبرانہ طرز فکر حاصل ہونے کے بعد مومن کو مرتبہ  احسان حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور وہ یہ دیکھ لیتا ہے، میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔

غور فرمایئے…… آدمی گناہ اس وقت کرتا ہے جب وہ یہ جان لیتا ہے مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا…… جب انسان کے اندر یہ یقین اپنی پوری تابناکی کے ساتھ کارفرما ہوجاتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے تو وہ یقیناً گناہوں سے بچ جاتا ہے۔

 

دعاگو

عظیمی

۲۸، جون ۱۹۹۶ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔