Topics

عظیمی صاحب کاقلندربابااولیاء کے نام خط


آقا! آپ کے قدموں کی خاک میرے لئے پاکیزہ اور مقدس ہے…… میرے آقا! آپ کا مقام میری نظر میں اتنا اعلیٰ و ارفع ہے جہاں میرے تصورات کی پرواز بھی ختم ہوجاتی ہے۔

میرے مولا! مجھ ایسے ہزاروں آپ پر سے قربان۔ آپ تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک، میرے دل کا سرور، میری مضطرب اور بے چین روح کا سہارا ہیں۔ آپ میرے لئے کیا ہیں …… میں اس کو بیان بھی نہیں کرسکتا۔ الفاظ کہاں ہیں میرے پاس…… میں اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں آپ کو محیط دیکھتا ہوں۔ آپ ہی تو ہیں کہ میری زندگی میں بہار ہی بہار ہے۔ آپ کی محبت…… آپ کا پیار…… آپ کی عنایت…… آپ کا کرم ہی تو میری حیات ہے۔

آپ کی جدائی کا احساس جب شدت اختیار کرلیتا ہے تو دل رونے لگتا ہے، آنکھ پرُنم ہوجاتی ہے…… سینہ میں گھٹن ہونے لگتی ہے۔ بعض مرتبہ تو ایسا لگتا ہے کہ دل جل رہا ہے اور سینہ سے دھوئیں کے بادل اُٹھ رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے خوب روؤں، آہ زاریاں کروں …… روح ایک چیخ مارتی ہے اور وہ چیخ ابھی باہر نہیں آتی کہ آپ کا سراپا مجسم نور، مجسم رحمت و شفقت سامنے آجاتا ہے۔ بے قراری قرار میں بدل جاتی ہے اور بے حالی و درماندگی کی جگہ ایک عجب قسم کی خوشی اور مسرت لے لیتی ہے۔ طبیعت اتنی ہلکی اور لطیف ہوجاتی ہے کہ ماحول کی ہر چیز خوشی میں جھومتی اور گاتی نظر آتی ہے…… لیکن پھر وہی اضطراب، اضطراب، اضطراب…… دل ڈوبتا ہے۔ آنکھیں اشک ریز ہوتی ہیں۔ دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ ذہن زخمی پرندوں کی طرح پھڑپھڑانے لگتا ہے…… جسم شل ہوجاتا ہے…… ہاتھوں پیروں سے جان نکلنے لگتی ہے…… کن پٹیاں بجنے لگتی ہیں …… خاموشی مسلط ہوجاتی ہے۔ ایسے جیسے کوئی کسی گہری سوچ میں غرق ہو مگر کچھ سمجھ میں نہ آتا ہو۔

روح پھر چیخ مارتی ہے…… اور نور مطلق میں ڈھلا ہوا سراپا نظروں میں سماجاتا ہے…… پھر وہی خوشی، وہی سرور، وہی کیف…… جب سےحضور تشریف لے گئے ہیں آپ کا عاجز، ناپاک اور گناہ گار بندہ مستقلاً اس کھیل میں مصروف ہے۔

آپ کب تشریف لارہے ہیں …… آپ کی صحت کیسی ہے…… آپ اپنے آرام کا ضرور خیال رکھئے۔ میں نے کئی مرتبہ یہ دیکھا ہے کہ آپ کی طبیعت بھاری ہے۔

برادر محترم مظفر صاحب کے خط سے آپ کی خیریت معلوم ہوگئی تھی۔

دلہن، فرخ، بی بی، بھائی جان، جمیل اور سلمیٰ، ڈاکٹر صاحب، جمال صاحب، بدر صاحب، رعنا اور ان کے بچے، نصرت اور ان کے بچے سب بخیر ہیں اور سلام عرض کرتے ہیں۔

 

آپ کا غلام

احمد شمس الدین

۸، جون، ۱۹۶۲

کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔