Topics

فاطمہ حسن

فاطمہ حسن صاحبہ

          وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          اللہ کی طرف سے دی ہوئی صلاحیتوں کو اللہ کے بخشے ہوئے علم الاسماء کی روشنی میں سمجھنا اور اس کے مطابق دنیا اور کائنات کے امور سر انجام دینا نیابت کہلاتا ہے۔

          انسان جب نیابت کے اس درجہ کا ادراک کر لیتا ہے تو اس پر منکشف ہوتا ہے کہ کائنات میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جس کی بنیاد اللہ کے نور پر قائم نہ ہو یعنی کائنات میں جو کچھ ہے اس کا دجود اللہ کے نور سے متحرک ہے۔

                   اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔   سورہ النور  : ۳۵

          قانون کے تحت ہر کام کے لئے ایک ضابطہ مقرر ہے۔ جب شے ضابطہ سے ہٹتی ہے، کسی خرابی یا عدم توجہی کی وجہ سے اس میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو اس روشنی کی رفتار اور فریکوئنسی میں جو کائنات کے محدود سے محدود ترین ذرہ میں گردش کررہی ہے، خلل واقع ہوتا ہے اور ناخوشگوار نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔

          مثلاََ بجلی کی منفی اور مثبت برقی رو جب تک اصول اور صابطہ سے بہتی ہے، مفید اور کارآمد نتائج پیدا کرتی ہے اور جب کسی وجہ سے اس میں رکاوٹ پیدا ہو تو قہر بن جاتی ہے جس کو عرف عام میں ’’ شارٹ سرکٹ ‘‘ کہتے ہیں۔ یہی معاملہ جب  اشخاص کی طرف واقع ہوتا ہے تو اسے ناگہانی آفت، قسمت یا تقدیر کہہ کر سوچنے کی راہ بند کر لی جاتی ہے حالانکہ لوح محفوظ کے قانون کے مطابق تجلی جو ہمیشہ خیر ہی خیر ہے، ہر ذرہ میں دور کر رہی ہے اور اسے فیڈ کرتی ہے مگر جب فرد جسم کے محدود ترین خول میں تعفن یا کثافت پیدا کرتا ہے تو پھر یہی تجلی بے رخی اختیار کر لیتی ہے ۔تجلی ان قوتوں کی طرف رجوع کر جاتی ہے جو پاکیزہ اور نفس مطمئنہ کی حلاوت سے با خبر ہیں، خالق کائنات کے انوار سے فیص یاب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی روشنی دیتے ہیں۔ اس طرح خیر کا سرکل جاری و ساری رہتا ہے۔

          سوال یہ ہے کیا طرز عمل اختیار کریں کہ۔۔۔۔ہمارے اندر کثافت و تعفن پیدا نہ ہو جو خیر کو ہم سے دور کر دیتا ہے اور ہم محروم و مایوس و منتشر ہوجاتے ہیں۔اس کا واحد طریقہ اپنے اندر یقین و ایمان ہے۔یقین کا پیڑن جتنا مستحکم ہوگا اسی مناسبت سے ہم اللہ کی معرفت اور حیات و کائنات کی اصل سے واقف ہوسکتے ہیں۔ تفکر طلب یہ ہے کہ یقین اور ایمان کیا ہے۔۔۔۔اگر یقین کی بنیاد ہماری عقل ہے تو پھر بنیاد نا پائیدار ہے۔

          سوال یہ ہے کہ روح کیا ہے۔۔۔۔۔اللہ فرماتے ہیں کہ روح ’’ امر ربی‘‘ ہے یعنی اللہ کی طرف سے براہ راست عطا کی گئی ہے اور یہی وہ پائیدار شے ہے جو واپس اللہ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ اس پر مزید تفکر کیا جائے اور ایمان کی بنیاد اللہ کی عبودیت و حقانیت پر استوار ہو تو یہ وہ گراں بہا عطیہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنی صفات نوع آدم کی عطا کی ہیں اور یہ وہ عطیہ ہے جس نے ہمارا رشتہ کائنات سے جوڑ رکھا ہے۔

          یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جسم دراصل ایک عارضی لباس ہے جسے ہم معینہ وقت تک پہنے رہتے ہیں۔ اصل وجود وہ ہے جس کی وجہ سے عارضی لباس (جسم) میں حرکت ہے۔

          کائنات کی اصل، تعمیر ہے۔ بھلائی اسی میں ہے کہ کائنات کی کنہ سے واقف ہوکر اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ادا کریں۔ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ ان بزرگوں میں سے ہیں جنہیں صفات الٰہیہ کی معرفت حاصل ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنی بقا کے لئے ان کی تعلیمات کو نہ صرف سمجھیں بلکہ عمل کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلائیں۔

    جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں سے ساتھ ہے۔ العنکبوت : ۲۹

     قدرت کا کام جاری و ساری ہے۔ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو کوئی دوسری قوم ظاہر ہوگی اور یہ کارنامہ ان کے سر رہے گا۔ نوع آدم کا مستقبل توحیدالٰہی کے نور میں مخفی ہے جس دل میں ایمان کا ایک ذرہ بھی ہے اگر وہ ذرہ نور سے منور ہوجائے تو ایک عالم روشن ہوجائے گا۔آدمی اور انسان کے لئے الٰہی تعلیمات پر غور و فکر کرنا ، راہ نجات ہے۔         

 

                                                                        دعاگو                                                                                                                  خواجہ شمس الدین عظیمی                                                                                                            ۱۱ ،  دسمبر  ۱۹۸۵ء

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔