Topics

ڈاکٹر جاوید سمیع

محترم عظیمی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

امید ہے  آپ خیریت سے ہیں۔ امراض کی روحانی تشریح اور توجیہہ چاہتا ہوں۔ ازراۂ کرم راہنمائی فرمائیے۔

ڈاکٹر جاوید سمیع   ، شوگر اسپیشلسٹ (کراچی)

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

سر پر بہت سے بال ہوتے ہیں ، یہ سب کے سب مل کے انٹینا کا کام کرتے ہیں۔اگر بال نہ بھی ہوں تو بھی مسامات انٹینا کیجگہ کام کرتے ہیں۔ کوسمک رہز گشت کرتی رہتی ہیں۔۔۔ان ہی شعاعوں پر زندگی کا انحصار ہے۔ یہ شعاعیں مجموعی طور سے دماغ میں داخل ہوتی ہیں اور تقریباً تین چوتھائی مقدار دماغ اور ایک چوتھائی جو باقی دماغ میں داخل ہوتی ہیں اور تقریباً تین تین چوتھائی مقدار دماغ اور ایک چوتھائی جو باقی رہیں وہ پورے جسم پر فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر توازن میں کسیطرح کی کمی واقع ہو جائے مثلاً دماغ پر نوے فیصد خرچ ہونے لگے اورجسم کے لئے صرف دس فیصد باقی رہے تو اعصابی نظام میں کمزوری آجائے گی اور آہستہ آہستہ غلبہ حاصل کر لے گی۔۔ دماغ پر نوے فیصد کوسمک ریز خرچ ہو تو اس عمل سے حسیات کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً لکھنے کی ، سننے کی، سوچنے کی قوتیں کئی گنا ہو جاتی ہیں۔ اس فارمولے کے نتیجے میں غیب ، شہود بن سکتا ہے۔ یا بن جاتا ہے۔

جسم کے لئَ جو دس فیصد باقی رہا ان سے اندرونی طور پر اعصابی کمزوری رونما ہو جائے گی اور بیرونی طور پر اعصاب اکڑ کر سخت ہو جائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پاگل آدمی پر کئی آدمی مل کر بھی قابو نہیں پا سکتے۔

غور کیجئے کہ اگر کوسمک رہز تین چوتھائی سے بہت کم دماغ پر خرچ ہوتی ہے اور بہت زیادہ جسم کےلئے بچتی ہیں تو اس سے اعصابی نظام اندرونی طورپر بہت طاقتور ہو جاتا ہے لیکن بیرونی طور پر بالکل کمزور اور بیمار معلوم ہوتا ہے اور دماغ بہت کم کام کرتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ آدمی پاگل پن کی طرف بڑھتا ہے یا بالکل پاگل ہو جاتا ہے ۔ یہ دونوں صورتیں آدمی کو پاگل کردیتی ہیں لیکن پاگل پن کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔

اس ضمن میں بیماری کے مختلف مدارج رونما ہوتے ہیں۔ یہ تمام اعصابی بیماریاں ہیں۔ آدمی دماغی طور پرمفلوج ہو یا جسمانی طور پرل، دونوں حالتوں میں مفلوج ہوجاتا ہے۔ یہ ہمیشہ کوسمک ریز کے عدم توازن سے ہوتا ہے۔ یہی وہ کوسمک ریز ہیں جو دماغ سے داخل ہو کر دل میں پہنچتی ہیں اور یہ عمل دل کو حرکت دیتا ہے۔ جب یہ دل کو پمپ کرتی ہیں تو خون کے ذریعے جسم کی باریک ترین رگوں اور ریشوں سے گزرتی ہیں۔جسم کو سیراب کرنے کے بعد مسامات سے خارج ہوجاتی ہیں۔ فی الحقیقت یہ الیکٹرک فورس ہوتی ہیں۔ خالص پانی(H2O) ناموزوں کنڈیکٹر ہے اور خون بہترین کنڈیکٹر ہے۔ خون کو سمک ریز کے پریشر کو ضائع نہیں کرتا بلکہ جتنا پریشر اس کے ہر ذرہ کو ملتا ہے اتنا ہی پریشر وہ دوسرے ذرات کو پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوسمک ریز کی فورس یا پریشر کبھی کم نہیں ہوتے۔

ہاں اگر خوب میں کوئی ایسا نقص پیدا ہو جائے جو ذروں کے پریشر اٹھانے کی صلاحیت کم کردے  یا مفقود کردے تو جسم کے وہ حصے جن سے بیمار خون گزرتا ہے، مفلوج ہوجاتا ہے۔ فالج کی ایک قسم نہیں ہے بلکہ فالج ایک ہزار قسم کی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ اگر خون کی بیماری دل پر اثر اندا ہوں تو دل کی حرکات میں فرق آجاتا ہے۔ دماغ پر اثر انداز ہو ں تو سوچنے کی صلاحتیں متاثر ہو جاتی ہیں، بعض اوقات فیصلے کی قوت بالکل نہیں رہتی۔ کبھی کبھی آدمی گونگا، بہرہ ، اندھا بھی ہو جاتا ہے۔ بجز اس کے کہ اس کے اندر بھوک پیاس وغیرہ وقت کے اوپر بیدار ہو جائیں۔ یہ صلاحیتیں محض اس لئے متاثر نہیں ہوتی۔اتنی نہیں ہوتی جو دماغ کوسیراب کر سکے۔ دماغ کی سیرابی کے بغیر ہوش و حواس غیر متوازن رہتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ کوسمک ریز کا تین چوتھائی حصہ دماغ پر خرچ ہوتا ہے ، ایک چوتھائی حصہ تمام جسم پر ۔ آپ نے ایسے پہلوانوں کو دیکھا ہوگا  کہ ان کا دماغ اکثر غیر متوازن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جسم پر کوسمک کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ صرف ہونے لگتا ہے۔ جتنا ذیادہ صرف ہوتا ہے اسی مناسبت سے ان کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔

یہ سب کو معلوم ہے کہ خون دور کرتا ہے۔ دوران خون ہر آدمی کے جسم میں یکساں نہیں ہوتا۔ یہی بات بیماری کی جڑ ہے۔ اگر دوران خون غیر متوازن ہو جائے یعنی ایک سطح سے نیچے آجائے تو آدمی بیمار ہو جائے گا۔ دوران خون کے لئے اوپر بھی ایک سطح مقرر ہے اگر اس سے زیادہ ہو جائے گا تو بھی آدمی بیمار ہو جاتا ہے۔

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔