Topics

عباد

محترم عظیمی صاحب

السلام علیکم

اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو عقل عطا کی ہے جس کے ذریعے وہ ایجادات کرتا ہے اور صحیح و غلط کی تمیز کرسکتا ہے۔ پھر روحانی ترقی میں عقل کو رکاوٹ کیوں سمجھا جاتا ہے۔ جاننا چاہتا ہوں کہ عقل کے ذریعے لامحدودیت تک رسائی کیوں ممکن نہیں ہے……

بہت شکریہ

آپ کا روحانی فرزند، عباد

 

عزیز روحانی فرزند عباس صاحب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

بلاشبہ عقل اللہ کی بڑی نعمت ہے لیکن لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ تمام مادی اشیاء کی طرح عقل بھی محدود ہے۔ وہ وہیں تک ان کی راہنمائی کرسکتی ہے جہاں تک اس کی حد ہے۔ مادہ (Matter)، ورائے مادہ کی لامحدودیت کو کیسے پاکستان ہے…… چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اس عقل نے آدمی کو فکر و عمل کی انتہائی بلندیوں پر پہنچایا وہیں اسے درماندگی اور پریشانیوں کے گہرے گڑھوں میں بھی دھکیلا ہے۔ آج نوع آدم ہلاکت و خونریزی اور خوف و انتشار کے عذاب میں مبتلا ہے۔

بنیادی وجہ یہی ہے آدمی جب تک عقل کو الٰہی ہدایت کے تابع نہیں کرے گا اس کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے ہر دور میں ہدایت الٰہی کی روشنی پھیلاتے رہے مگر نوع آدم کے بیشتر افراد کو ان کی فکر کے اسی تضاد نے حقیقت تک پہنچنے نہیں دیا۔

موجودہ دور کے عظیم روحانی سائنسدان حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

”انا کے صفت الٰہیہ میں جذب ہونے کی کئی منزلیں ہیں اور پہلی منزل ایمان لانا ہے اور اس ایمان کے بارے میں قرآن کریم نے اپنی ابتدائی آیت میں شرائط بندی کردی کہ اس عظیم المرتبہ کتاب میں کوئی شک نہیں ہے اور اس میں اللہ سے ڈرنے والوں یعنی ان لوگوں کے لئے جو برائی سے بچنا اور نیکی کے راستے پر چلنے کا رجحان (Aptitude) ہے صرف ان کے لئے اس میں ہدایت ہے اور پھر وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، غیب پر یقین رکھتے ہیں۔

اس حوالہ کے بعد حضور قلندر بابااولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

قانون یہ ہے کہ غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری و لازمی ہے۔

اس فرمان کی روشنی میں بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ تمام لوگ جو صرف اور صرف عقل کی موشگافیوں پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کے ذریعے حیات و کائنات کو سمجھنا اور اس کی گتھیوں کو سلجھانا چاہتے ہیں وہ کس قدر نادانی میں مبتلا ہیں اور کیوں حیات و کائنات کی صداقتوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ عقل صرف ہاں کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ زندگی کی حقیقت نفی اور اثبات میں مضمر ہے۔

حضور قلندر باببا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ کائنات کی ساخت میں نظر نہ آنے والی روشنی (نسمہ) ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کی ساخت میں موجود چھوٹے سے چھوٹے کم ترین جز کی بنیاد دو قسموں پر ہے۔ ایک منفی اور ایک مثبت اور دونوں صلاحیتوں میں توازن ہے…… یہ وہ بنیادی شعاعیں ہیں جو کسی بھی وجود کی ابتدا کرتی ہیں۔ یہ روشنیاں ہمارے اطراف خلا میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ ان میں کوئی فاصلہ ہے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ یہی وہ لکیریں ہیں جو تمام مادی اجسام کی بناوٹ میں اصل (Base) کا کام دیتی ہیں۔

 

دعاگو

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱، دسمبر۱۹۹۴ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔