Topics

اقبال بیگم

بر خوداری اقبال بیگم

   وعلیکم السلام و ر حمتہ اللہ

   دیکھنے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ فرد کسی چیز کو آنکھ کے ذریعہ دیکھ رہا ہے اور محسوس بھی کر رہا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں لیکن اللہ کے نزدیک یہ دیکھنا فی الواقع دیکھنا نہیں ہے۔ اس کی توجیہہ یہ ہے کہ جب  ہم نظر اٹھاتے ہیں تو کسی چیز کے اوپر  ہماری نظر ٹھہرتی ہے اور ہم  کہتے ہیں کہ یہ فلاں چیز ہے، اس کو ہم دیکھنا کہتے ہیں۔

  ہم جب نظر دیوار کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو نظر دیوار سے ٹکرا کر واپس آتی ہے اور ہمارے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ یہ دیوار ہے اور ہم دیوار کو دیکھ رہے ہیں  لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ اگر ہم دیوار کے اوپر نظر کو پانچ دس منٹ اسی طرح مرکوز کردیں کہ آنکھ کے ڈیلے ساکت ہوجائیں اور ان پر پلک کی ضرب نہ پڑے یعنی پلک جھپکنے کا عمل رک جائے تو ہماری آنکھوں کے سامنے سے دیوار غائب ہوجاتی ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، ہر شخص یہ تجربہ کر سکتا  ہے۔

اسی طرح جب ہم دائرہ بناتے ہیں اور اس پر نظر جماتے ہیں تو اس وقت بھی یہی صورت پیدا ہوتی ہے کہ دائرہ نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ دائرہ پر نظر قائم ہو جاتی ہے تو پہلے ایک کے دو دائرے بنتے ہیں اور جب مرکزیت میں قیام واقع ہو جاتا ہے تو دائرہ کے اندر خلا پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔اور خلا کے اندر روشنی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ اسی طرح جب ہم چراغ کے اوپر نظر جماتے ہیں تو چراغ کی لو غائب ہوجاتی ہے اور وہاں ہم ایک  دودھیا، نیلے یا سبز رنگ کی روشنی کی مشاہدہ کرتے ہیں۔ صرف مثالیں پیش کرنا مقصد نہیں، عرض یہ کرنا ہے کہ نظر کی مرکزیت کے بعدوہ چیز ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ چیز کہاں چلی جاتی ہے اور اگر یہ چیز نظروں کے سامنے سے غائب ہو جاتی ہے تو  ہم عام حالات میں کیا دیکھتے ہیں۔۔۔۔ظاہر ہے کہ ہم وہ دیکھتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے  کہ حقیقت نہ تبدیل ہوتی ہے اور نہ غائب۔۔۔۔۔ہمارا دیکھنا ، آنکھ کا دیکھنا ہوتا ہے اور آنکھ کے دیکھنے کا قانون یہ ہے کہ پلک کی ضرب جب آنکھ کے ڈیلے کو متاثر کرتی ہے تو آنکھ دیکھی ہوئی چیز کی اطلاع دماغ کو فراہم کرتی ہے لیکن اگر پلک چھپکنے کا عمل معطل ہو جائے تو وہ چیز نظر کے سامنے سے غائب ہوجاتی ہے۔

دیکھنے کی دوسری طرز یہ ہے کہ ہم اپنے اندر دیکھ رہے ہیں یعنی کسی چیز کے عکس کو اپنے اندر مشاہدہ کررہے ہیں، یہی دیکھنا دل کی آنکھ کا دیکھنا ہے۔ دل کی آنکھ وہ چیز ہے جس کا حصول کسی شخص کو مومن کے درجہ پر فائز کرتا ہے۔

اس طرز کو حاصل کرنے کے لئے مراقبہ کیا جاتا ہے ۔ اس طرح کہ آدمی آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائے اور آنکھوں پر کوئی ایسا کپڑا باندھ لے جس سے آنکھوں کے پپوٹوں پر ہلکا سا دباؤ رہے۔ پپوٹوں پر دباؤ ڈالنے سے مقصود یہ ہے کہ پپوٹوں اور ڈیلوں کی حرکت ساکت ہوجائے ۔ جیسے ہی پپوٹوں کی حرکت ساکت ہوتی ہے، دیکھنے کی طرز بدل جاتی ہے۔

تصوف میں یہ بات نہ صرف ذہن نشین کرادی جاتی ہے بلکہ اس کا مشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے کہ ہر چیز انسان کے اندر موجود ہے۔اللہ کے نزدیک مسلمان اور مومن  میں فرق ہے۔ مومن اللہ کے قانون کے مطابق وہ ہے جو تفکر کے بعد غیب کا مشاہدہ کرے اور جس کی طرز فکر میں تفکر نہیں ہوگا ، اس کے لئے غیب کا مشاہدہ زیر بحث نہیں آتا ۔ قرآن پاک میں اللہ نے جگہ جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ تفکر کرو ، غور و فکر کرو اور اللہ کی نشانیوں کو پوری ذہنی صلاحییتوں کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرو۔ روحانیت کا در حقیقت منشا یہی ہے کہ انسان کے اندر تفکر کی طرزوں کو پیدا کیا جائے اور مستحکم کیا جائے۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ مسلمان اور مومن میں فرق ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے

                                  یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے

                                         بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے ہیں۔ ایمان ابھی تمھارے دلوں

                                          میں داخل نہیں ہوا ہے۔ الحجرات : ۱۴

بات یہ ہے کہ ایمان کا منشا یقین ہے۔۔۔۔ یقین کا منشا مشاہدہ ہے ۔ اللہ تعالی یہ بھی فرماتے ہیں

                                      ہم نے آسمان کو بروج بنایا اور دیکھنے والوں کے لئے اسے

                                         زینت بخشی اور شیطان مردود سے محفوظ کردیا۔ الحجر: ۱۶۔۱۷

مطلب واضح ہے کہ شیطنت کے مرتکب لوگ اللہ کے بروج کی زینت نہیں دیکھتے۔

دعا گو

عظیمی

۹ ، مارچ  ۱۹۸۲ء                                           

    1-D-1/7 ، ناظم آباد ۔ کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔