Topics
مرشد
کریم کو تہہ دل سے سلام…… السلام علیکم ورحمتہ اللہ
دل آپ
کے ساتھ گزرے لمحوں کی گرفت میں رہتا ہے۔ جب سامنے ہوتا ہوں تو ہر سوال بے معنی ہوجاتا
ہے۔ بس خود کو نثار کرنے کی خواہش ہوتی ہے لیکن جب اپنی دنیا میں واپس آتا ہوں تو وہی
سوال گھیرلیتے ہیں۔
مرشد
اور مرید کے رشتہ کو میں اس طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ تعفن میں رینگتے ہوئے
کیڑے کو اللہ کا ایک دوست روشنی کے سانچے میں ڈال دیتا ہے اور تربیت کرتا ہے، اس کے
اندر کے تعفن کو دھوتا ہے اور جب کیڑا پوری طرح صاف ہوجائے تو اس کو تتلی بنانے کے
لئے توانائی فراہم کرتا ہے۔ جب مرشد کی محنت سے مرید تتلی بن کر اللہ میاں کے اس باغ
کائنات میں اڑنے کو تیار ہوتا ہے تو مرشد اپنی نگرانی میں اڑنا سکھاتا ہے۔
لیکن
یہ دن جو کیڑے کو تتلی بننے میں گزرتے ہیں، اس میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں اور کیڑے
کے ذہن پر بوجھ ڈالتے ہیں۔ کیڑا باخبر ہے کہ وہ تتلی بن رہا ہے لیکن ڈر ہے کہ وہ تتلی
بن پائے گا یا نہیں …… وہ جانتا ہے کہ شک شیطان کا ہتھیار ہے پر کبھی کبھی وہ شک کے
بھنور میں پھنس جاتا ہے۔
تربیت
شروع ہوتی ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ کوئلہ رہتا ہے نہ ہیرا…… اس وقت نہ کوئلے کی
کان میں اسے اپنایا جاتا ہے نہ ہیرے کے ساتھ سجایا جاتا ہے۔ وہ اکیلا اور پریشان رہتا
ہے جلتی بجھتی امید کے ساتھ۔
ایسے
میں پچھلی زندگی کی طرف دیکھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو کب کی چھوٹ گئی ہے اور
آگے دیکھتا ہے تو خدشات ابھرتے ہیں کہ معلوم نہیں ہیرا بننے میں کتنی دہائیاں لگیں۔
نہ پرانی سوچ سے پوری طرح آزادی ہے نہ نئی سوچ میں پوری طرح رنگا ہوا ہوتا ہے۔ لگتا
ہے کہ کیڑا سمندر کی لہروں پر سوار ہے۔
کبھی
اچھے دن ہوتے ہیں اور کبھی خوف طاری ہوجاتا ہے۔ کبھی باخبری کے لمحات ہوتے ہیں اور
کبھی واقفیت کا لامتناہی سلسلہ! میری حیثیت کیڑے جتنی بھی نہیں لیکن درخواست ہے کہ
میں بے رنگ ہونا چاہتا ہوں تاکہ…… مرشد کے رنگ میں رنگ جاؤں۔ نہ میں کوئلا رہا ہوں،
نہ اب تک ہیرا بن سکا ہوں۔میرا ایک ہی مقام ہے کہ آپ کے قدموں میں رہنا ہے۔چاہتا ہوں
کہ ہر روز میری ”میں“ قربان ہو۔
پروانہ
دل کا شمع کی روشنی میں ہے۔ دعا کیجئے کہ اس روشنی میں جلنے کی تڑپ کبھی نہ بجھے……
آپ کو
بہت یاد کرتا ہوں …… ایک بار پھر تہہ دل سے سلام!
نیاز
مند
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
ایک روحانی بندہ کے دو شاگرد تھے۔ ایک شاگرد دوڑ دوڑ کر مرشد
کے کام کرتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے دماغ میں ایک روزن کھلا۔ اس روزن میں اس نے فلم
دیکھی۔ فلم کے کردار دو زاویوں، دو کرداروں پر مشتمل تھے۔ کانٹوں بھرے گلستان سے تیز
ہوا آئی اور پورے جسم میں بجلی دوڑ گئی۔ کرنٹ کو سمجھنا چاہا تو خیال تو خیال آیا کہ
ہم دونوں شاگرد، بھائی ہیں اور دونوں کے مرشد ایک ہیں۔ میں ہر وہ کام کرتاہوں جس کے
لئے محسوس کرتا ہوں کہ یہ مرشد کی خدمت ہے لیکن خدمت کا صلہ وہ نہیں ملتا جو میرے بھائی
شاگرد کو ملتا ہے۔
یہ خیال بجلی کی طرح جسم میں دوڑ گیا…… الوژن (illusion) سوچ تمام خیالات
پر غالب آگئی۔ شاگرد نے مرشد سے عرض کیا، میں اتنے سال سے آپ کی خدمت کررہا ہوں، مجھے
میرا حصہ دے دیں۔
مرشد نے کہا، بیٹا! تم نے مکھن دیکھا ہے……
شاگرد نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا، جی ہاں دیکھا ہے
مرشد نے پوچھا، مکھن کہاں سے نکلتا ہے……
شاگرد نے بتایا، دودھ سے
مرشد نے پوچھا، دودھ میں سے کب نکلتا ہے……
شاگرد نے عرض کیا، دودھ بلونے سے
بیٹا! اب اصل بات شروع ہوتی ہے۔ دودھ کا سورس (Source) کیا ہے……
شاگرد نے عرض کیا، جناب! دودھ کا سورس گائے ہے
مرشد نے فرمایا، اور گائے جہاں سے بھی آتی ہے ہم نہیں جانتے
جب کہ ہماری ظاہری آنکھیں گائے کی پیدائش اور اس کے وجود کو دیکھتی ہیں۔ گائے کے بچہ
کے لئے گائے ماں بنتی ہے اور ماں اپنے بچوں کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ توانائی کے لئے
ضروری ہے کہ توانائی حاصل کرنے کے وسائل مہیا ہوں۔ وسائل سے مراد آنکھوں دیکھا وسیلہ
یہ ہے: گائے کا وجود…… گائے کا ماں بننا اور…… تھنوں سے دودھ اترنا۔
بیٹا سوچو! ذہن کو آزاد کرو۔ صرف اس بات کا کھوج لگاؤ کہ اس
کی ایکویشن (Equation) کیا بنی…… میں نہیں بتاتا۔ ہمارے اندر جو فہم
ہے ہم سب کو بتاتی ہے۔ ایک شاگرد، مرید یا چیلے کو مکھن کب حاصل ہوا……
ہمارا دماغ، ذہن، فہم سوچ کا خزانہ ہے۔ جب ہم اپنی سوچ کے خزانہ
کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمیں کس بات پر دھیان ہوتا ہے…… مرید ہاتھ باندھ کر رونے
لگا اور مرشد کے تخت پر رکھ دیا۔
مرشد نے ایک اور دراز کھولی…… مکھن کہاں ہوتا……
شاگرد نے عرض کیا…… جناب! دودھ میں
پوچھا، دودھ میں سے مکھن کا وجود کب ظاہر ہوتا ہے……
مرید حواس باختہ ہوگیا۔ مرشد نے مرید کے سر پر شفقت سے ہاتھ
رکھا اور کہا،
بیٹا! دودھ بلونے سے
خلاصہ: مرشد……شاگرد……شاگرد کا انتخاب……مرشد کا انتخاب
گائے کا بچہ کو پالنا……پرورش کرنا
گائے کا ماں بننا…… دودھ اترنا
(دودھ کا فارمولا
آپ بتائیں، دودھ بنتا کیسے ہے……)
اللہ تعالیٰ کے نظام میں دودھ کی ایک ایکویشن اور ایک فارمولا
ہے اور یہ فارمولا بچہ کی صحت کا امین ہے۔ اس مثال سے سمجھو…… پرندے درخت پر بیٹھے
ہیں، کسی نے بندوق سے فائر کیا، بیٹا بتاؤ کیا ہوگا…… یاد رکھو! زندگی کا ہر مرحلہ
ایثار ہے۔ ایثار سے گزر کر زندگی …… بندگی بنتی ہے۔
دعاگو
عظیمی
۱۳، اکتوبر، ۱۹۹۲ء
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔