Topics
جناب الشیخ عظیمی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ روحانی علوم سیکھنے کے لئے
کسی استاد کی شاگردی اختیار کرنا ضروری ہے مگر ہم کسی انسان کے بارے میں کیسے تعین
کریں کہ فلاں شخص واقعی روحانی علوم سکھا سکتا ہے۔اور وہ روحانی علوم پر عبور
رکھتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
اللہ نے ہر مرد عورت کو روحانی علوم سیکھنے کی صلاحیت ودیعت
کی ہے لیکن دیگر صلاحیتوں کی طرح اس
صلاحیت کوبھی بیدار کرنے اور بروئے کار لانے کے لئے ایک قاعدہ قانون ہے۔
قانون کے مطابق وہی بندہ رہنمائی کرسکتا ہے جو بذات خود
قانون سے واقفیت رکھتا ہو او رمذکورہ صلاحیت خود اس کے اندر بیدار ہو۔
آج کے دور میں روحانی استاد اور شاگرد کے رشتہ کا قیام جسے
عرف عام میں پیری مریدی کہتے ہیں ایک رسم بن گیا ہے۔ لوگ شکل و صورت دیکھ کر اور
یہ دیکھ کر اس آدمی کے بے شمار مرید ہیں، مرید بن جاتے ہیں لیکن تحصیل علم کے
سلسلہ میں نتیجہ زیاہ تر صفر ہی ہوتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے اس تعلق خاطر کی بیناد رسم
کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی ۔
سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ بیعت کرنے
میں جلد بازی سے کام لینا نہیں چاہئے۔ پہلے ہر طرح سے اس بات کا اطمینان کرلیا
جائے کہ وہ بندہ جس کے ہاتھ میں ہم اپنا ہاتھ دے رہے ہیں روحانیت کے قانون سے
واقفیت بھی رکھتا ہےیا نہیں۔
سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ قانون بھی بنایا ہے
کہ ایک دفعہ بیعت کرنے کے بعد کوئی آدمی اپنی مرضی سے بیعت توڑ نہیں سکتا۔ رسول
اللہ کے اس ارشاد اقدس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی بندہ جب اللہ کے راستے پر قدم
بڑھائے تو اس کے اندر یقین مستحکم ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ پہلے
روحانی استاد کو پرکھ لیا جائے اور اس کے ہاتھ پر بیعت ہونےسے پہلے یقین کی حد تک
اس بات کا اطمینان کر لیا جائے کہ اس آدمی میں روحانی صلاحیتیں موجود ہیں اور ان
صلاحییتوں کا استعمال بھی جانتا ہے؟
زندگی کی عام طرزوں میں بھی ہمارایہ مشاہدہ ہے کہ ہم اپنے
بچوں کو ایسے استادوں کے سپرد کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ
استاد ہی صحیح معنوں میں ہمارے بچے کی تعلیم و تربیت کرے گا۔ اسی طرح روحانی استاد
بنانے میں بھی یقین ہونا ضروری ہے۔ چونکہ روحانی علم کا حصول اور غیب بینی کی
صلاحیت کا بیدار ہونا یقین پر منحصر ہے اس لئے استاد کے معاملے میں بے یقینی سے
آدمی روحانی راستے میں سفر نہیں کر سکتا۔
روحانی علوم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک علم کا نام استداراج ہے
جس کے ضمن میں جادو وغیرہ آتے ہیں اور دوسرے علم کا نام روحانیت یا رحمانی علوم
ہیں۔ علم استدراج اللہ کی نافرمانی، اللہ کی مخلوق کو تکلیف پہنچانے اوردنیا میں
تخریب پھیلانے، خرق عادت سے اپنی نمائش کرنا ہے۔
اس کے برعکس اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے ، اللہ کا عرفان
حاصل کرنے او راپنی روحانی صلاحیت اور طاقت سےا للہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے
والے تمام روحانی علوم اللہ سے ہم رشتہ ہیں۔ جس طرح کوئی بندہ قدم قدم سفر کر کے
اللہ کا عرفان حاصل کرتا ہے اسی طرح کوئی بندہ اس راستے کے متضاد قدم قدم سفر کرکے
شیطان کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ شیطان کے عارف استدراج کے عامل کہلاتے ہیں۔
روحانیت کے یہ دو رخ بیان کرنے کا منشاء یہ ہے کہ اللہ کے
راستہ پر چلنے کے لئے انسان کو پہلے چھان بین کر لینی چاہئے کہ جس بندے کو ہم اپنا
رہنما یا پیرو مرشد تسلیم کر رہے ہیں اس کے اندر روحانی علوم سکھانےکی صلاحیت
موجود ہے یا نہیں اور کیا روحانی علوم کا وہ رخ اس کے اندر کام کر رہا ہے جس کو
استدراج یا شیطانی علوم کہا گیا ہے۔ اس لئے کہ استدراج کے ماہرین سے فوق العادت
سرزد ہوتی ہیں جنہیں ناواقف لوگ کرامت یعنی رحمانی قوتوں کا اظہار سمجھ لیتے ہیں۔
کسی پر اعتراض کرنا مقصود نہیں، بتانا یہ ہے کہ عرفان کے
راستہ پر قدم اٹھانے سے پہلے اس بات کا اطمینان کر لینا ضروری ہے کہ وہ بندہ جسے
آپ اپنا رہنما بنارہے ہیں وہ اللہ کا عرفان رکھتا ہے یا نہیں اور اس کی زندگی کے
شب و روز بظاہر ہی نہیں باطنی طور پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی سے مطابقت
رکھتے ہیں یا نہیں ۔ کتنا ہی طویل عرصہ کیوں نہ گزر جائے جب تک ایسا بندہ نہ ملے
جو واقعتاً حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے روحانی علوم سے واقفیت رکھتا اور حضور ﷺ
کے نقش قدم پر چلتا ہو بیعت نہیں کرنا چاہئے اور یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کسی بندے
کے اندر کیا بھرا ہوا ہے اس سے قریب ہونا پڑے گا اس کے شب و روز پر نگاہ رکھنی
ہوگی، اس کے معاملات کو دیکھنا ہوگا۔
اس کے ذہن کو پڑھنا ہوگا کہ وہ دنیا کی ہوس میں کہاں تک
مبتلا ہے۔ اس کے اندر استغناء ہے یانہیں اور وہ اپنے ذاتی معاملات اللہ اوپر
چھوڑتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتاہے۔
ایسے بندہ کی ایک پہچان اللہ کے دوستوں نے یہ بتائی ہے کہ
ایسے بندہ کے پاس بیٹھنے سے ذہن پوری استعداد اور صلاحیتوں کے ساتھ اللہ کی طرف
رجوع ہوجاتاہے۔ گناہوں اور تخریبی عمل سے ذہن میں دوری واقع وہنے لگتی ہے۔اللہ کی
مخلوق کی محبت دل میں جانگزیں ہوجاتی ہے۔ غصہ، نفرت جیسے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔
دعاگو
عظیمی
۱۴ دسمبر ۱۹۹۰
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔