Topics

نام - نامعلوم

آپ نے اپنے عرفان نفس سے متعلق مضامین میں ابھی تک کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ قارئین کے اوپر یہ تاثر چھوڑنا چاہتے ہیں کہ آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں۔ اس کا آپ تجربہ رکھتے ہیں۔ بندہ طالب علمی کے زمانے ہی سے نفسیات کا ذوق رکھتا ہے، مابعد النفسیات کو بھی میں نے پڑھا ہے لیکن وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو آپ لکھ رہے ہیں۔

آپ کی تحریروں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فرشتے، جنات اور غیب کا تعلق مابعد النفسیات سے ہے۔ یہاں تک کہ آپ مضمون میں اس علم کو علم لدنی کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ ایک مضمون میں آپ سرے سے ہی حواس کی حیثیت کو قبول نہیں کرتے۔ نیز آپ خواب کو زندگی کا نصف قرار دے کر بیداری کو رد کرتے ہیں۔ اس بیداری پر دنیا کی پوری تاریخ  کا دارومدار ہے اور جس پر دنیا میں تمام رائج علوم کا انحصار ہے اور جس بیداری پر نوع انسان کی لاکھوں کروڑوں سال کی زندگی کا قیام ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ بیداری کے اندر جو حواس کام کرتے ہیں چونکہ وہ مفروضہ ہیں اس لئے بیداری بھی مفروضہ ہے۔

اس مرتبہ جنات کو آپ نے انسانوں سے زیادہ ہمدرد اور غم خوار کہہ کر انسان کی ذات پر حملہ کیا ہے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ آپ نے اس مضمون میں انسان اور پوری انسانیت کی توہین کی ہے۔ انسان جب اشرف المخلوقات ہے تو کسی بھی زاویہ یا عنوان سے اس کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق اس میں چاہے فرشتے اور جنات ہی کیوں نہ ہوں، کیسے انسان سے برتر ہوسکتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ آپ عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ اگر میرا یہ خیال درست ہے تو میں آپ سے ملتجانہ درخواست کروں گا کہ ہماری قوم میں پہلے ہی پاگلوں کی کون سی کمی ہے جو آپ اس قسم کے مضامین لکھ کر پوری قوم کے حواس سے کھیلنا چاہتے ہیں۔

اگر آپ کو لکھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اور بھی بہت سے موضوع ہیں جس سے قوم کے شعور میں جلا پیدا ہوسکتی ہے لیکن آپ سے کیا کہا جائے آپ تو شعور کو ہی مفروضہ کہتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں جب شعور ہی نہیں رہے گا تو یہ سب جو ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں کس طرح نظر آئے گا۔ لاکھوں سال میں انسان کی نوع نے جو ارتقائی منزلیں عبور کی ہیں ان سب کا کیا حشر ہوگا۔

اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں، یہ جو مضمون آپ لکھتے ہیں اگر شعور ہی نہیں ہوگا تو کون پڑھے گا، کون سمجھے گا اور آپ کیسے لکھ دیں گے۔

(نام پتہ شائع نہ کریں)

 

عزیز بھائی، آپ کا خط شائع کیا جارہا ہے۔ آپ نے اس خط میں جن باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ یہ ہیں۔

 

۱۔ بیداری کے اندر جو حواس کام کرتے ہیں وہ سب کے سب مفروضہ نہیں ہیں

۲۔ خواب کو زندگی کا نصف حصہ قرار دینا عقل و شعور سے ثابت نہیں ہوتا

۳۔ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، وہ مابعد النفسیات کے علوم کا احاطہ نہیں کرتا

۴۔ مضمون میں جنات کو انسان سے زیادہ ہمدرد اور غم خوار کہہ کر انسانیت کی توہین کی گئی ہے

۵۔ میں عوام کو گمراہ کررہا ہوں

۶۔ آپ نے ایک بہت ضروری بات یہ لکھی ہے کہ حریت میں مابعد النفسیات کے عنوان سے شائع ہونے والے مضامین پڑھ کر آپ تجسس کے عذاب میں گرفتار ہوجاتے ہیں

ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں جو آپ نے تحریر کی ہیں۔ علم مابعد النفسیات میں ان علوم سے بحث کی جاتی ہے جو طبیعیات اور نفسیات کی نفی کرتے ہیں اور سب سے پہلے ہمیں یہ تلاش کرنا ہے کہ ہمارے اندر جو حواس کام کررہے ہیں اور جن کو ہم بیداری کے حواس کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں وہ کس طرح بنتے ہیں اور ہمیں کہاں سے وصول ہورہے ہیں۔ یاد رکھئے ہمارے اندر جو حواس کام کررہے ہیں ان کا وجود مستقل نہیں ہے۔ ابھی ہم خوش ہورہے ہیں اور پھر ناخوش ہوجاتے ہیں۔ ہم ہر قدم پر حواس کی گرفت میں اس طرح جکڑے اور بندھے ہوتے ہیں کہ ہماری اپنی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔

من حیث المجموع ہم کسی ایک تصور، کسی ایک خیال، کسی ایک احساس یا کسی ایک عمل کو خوشی اور راحت کا ذریعہ قرار نہیں دے سکتے۔ ایک خیال، ایک تصور یا عمل اگر میرے لئے خوشی اور راحت کا سبب ہے تو یہی عمل دوسرے فرد کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتا ہے۔

اگر ایک شخص اولاد کی زیادتی سے پریشان اور بدحال ہے تو دوسرا شخص اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مایوس اور ناامید ہے۔ اگر ایک آدمی افلاس اور تنگدستی سے عاجز آیا ہوا ہے تو دوسرا آدمی عیش و عشرت کے سامانوں کی کثرت سے دماغی کش مکش اور اعصابی کشیدگی میں مبتلا اور بے چین ہے۔ ایک آدمی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون کی دولت سے محروم ہے۔

جس کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ اس لئے بے چین اور مضطرب ہے کہ اسے وسائل حاصل نہ ہونے کی شکایت ہے اور جس کے پاس وسائل کا انبار ہے وہ اس لئے بے چین اور مضطرب ہے کہ ان وسائل نے اس کی ذہنی آزادی کو سلب کرلیا ہے۔

کہا جاتا ہے دنیا میں سب سے زیادہ محبت ماں کو اولاد سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماں بھی اولاد کو بھول جاتی ہے۔ شوہر بیوی کو بھول جاتا ہے اور بیوی شوہر کی جدائی کو فراموش کردیتی ہے۔ آج اگر ہمارے اوپر خوشی اور مسرت کے حواس غالب ہیں تو ہم غم و اندوہ سے لبریز حواس کو اس طرح نظر انداز کردیتے ہیں کہ وہ کبھی ہمارے اوپر مسلط ہی نہیں ہوئے تھے اور اگر آج ہمارے اوپر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں تو ہم اس زندگی، جس کو خوشیوں سے لبریز زندگی قرار دیتے ہیں اس طرح گزرجاتے ہیں کہ یاس اور ناامیدی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں۔

ان تمام حقائق کی موجودگی میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم بیداری کے جن حواس میں زندگی گزار رہے ہیں وہ مفروضہ نہیں ہے۔ یہ بات بہت غور طلب اور اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو پابند اور مقید پیدا نہیں کیا۔ قرآن پاک کے بیان کردہ قانون کی روشنی میں اصل انسان حواس کا پابند کبھی نہیں ہوا، حواس ہمیشہ انسان کے پابند رہے ہیں۔ آیئے یہ تلاش کریں کہ انسان کو حواس، سوچنا سمجھنا، متاثر ہونا، غم زدہ یا خوش ہونا، زندہ رہنے کی کوشش کرنا یا موت سے ہم آغوش ہوجانا کہاں سے ملے ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے

تمہارا دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔ تمہارے اوپر

زمانیت اور مکانیت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

لیکن دیکھنا اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم اپنے اوپر قید و بند کا عذاب مسلط کرلوگے۔

وہ درخت گندم کا درخت ہرگز نہیں ہے۔ وہ درخت ہے حواس کا، ایسے حواس کا جو انسان کو ہمیشہ پابند اور مقید رکھتے ہیں۔ درخت معنوی نقطۂ نظر سے ایک ایسی چیز کو کہا جاتا ہے کہ جس میں شاخ در شاخ پتے اور پھل کی موجودگی پائی جاتی ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اے آدم! زمان و مکان کی پابندی قبول نہ کرنا ورنہ تو اس میں اس طرح جکڑا جائے گا جس طرح کسی درخت میں شاخ میں سے شاخ اور پھر شاخ میں سے شاخ اور ہر شاخ میں بے شمار پتے ہوتے ہیں اور جب تو اس قید و بند کو آزادی کی اور خوشی کے بدلے قبول کرلے گا تو اپنے اوپر ظلم کرے گا۔

فَتَکُوْناَ مِنِ الظاَلِمِیْنَ O سورۃ بقرہ: ۳۵

اور جب آدم نے قید و بند کی زندگی کو اپنالیا تو جنت نے (جو آزاد اور زماں اور مکان کی پابندیوں سے ماورا مقام ہے) اسے رد کردیا چونکہ انسان جنت کے حواس کھوبیٹھا تھا جو اس کے اپنے اصل حواس ہیں۔ اس لئے انسان یا آدم کو زمین پر پھینک دیا گیا جہاں وہ پابندی اور قید و صعوبت کے حواس میں گرفتار ہے۔ علم مابعد النفسیات کا یہ کہنا ہے کہ زمین کے اوپر کام کرنے والے حواس مفروضہ ہیں۔ مبنی برحقیقت ہے اس لئے کہ یہ انسان کے اصل حواس نہیں بلکہ عارضی اور نقلی ہیں۔ انسان کے اصلی حواس وہ ہیں جہاں اس پر زمان مکان کی حد بندیاں عائد نہیں ہوتیں۔ اگر انسان ان عارضی اور نقلی حواس کے تسلط سے نجات پاجائے تو پھر وہ اپنے اصلی اور آزاد حواس کو حاصل کرسکتا ہے جس میں نہ غم کا دخل ہے نہ پریشانی کو اور نہ جذبات کی کش مکش، اعصابی کشیدگی اور دل دماغ کے کرب کی داستانیں ہیں۔

عزیز بھائی! حریت میں شائع ہونے والے کسی مضمون میں بیداری اور،خواب کے حواس کی تشریح کی جاچکی ہے مختصراً پھر سن لیجئے۔ نوع انسان کی تاریخ میں ایسی ایک بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی کہ انسان بیداری اور سونے کی حالتوں میں سے کسی ایک حالت پر قدرت رکھتا ہو۔ انسان جس طرح سونے پر مجبور ہے بالکل اسی طرح بیداری بھی اس کی طبیعت کا ایسا تقاضا ہے جس کو وہ کسی صورت میں رد نہیں کرسکتا۔

بیداری کے اعمال و واقعات میں انسان کا دماغ جس طرح توہمات، خیالات، تصورات اور عمل کرنے کی تحریکات کا آماجگاہ بنا رہتا ہے بالکل اسی طرح خواب میں انسانی دماغ ایک لمحہ چین سے نہیں بیٹھتا۔ خواب کے اندر کئے ہوئے اعمال اگر حافظہ کی گہرائی میں نقش ہوجاتے ہیں تو وہ اس طرح یاد رہتے ہیں جس طرح بیداری میں کیا ہوا عمل یاد رہتا ہے۔ اگر بیداری کا عمل حافظہ کی گہرائی میں نقش نہ ہو تو وہ اسی طرح بھول کے خانے میں جاپڑتا ہے جس طرح خواب میں کئے ہوئے اعمال فراموش ہوجاتے ہیں۔

یہ کوئی تمثیل نہیں ہے عام تجربات اور مشاہدات ہیں جس سے ہر شخص کی زندگی پیاز کے چھلکوں کی طرح لپٹی ہوئی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ابھی زندان میں ہی تھے بادشاہ نے خواب میں دیکھا سات موٹی گائیں ہیں اور سات دبلی۔ سات دبلی گائیں موٹی کو نگل گئیں اور سات سرسبز و شادات بالیں ہیں اور سات خشک۔ اور سات خشک  نے سات سرسبز و شاداب بالوں کو کھالیا۔ بادشاہ اس عجیب و غریب خواب سے پریشان خاطر اور حیران تھا۔ درباریوں سے خواب کی تعبیر چاہی، درباری بھی اس خواب کی تعبیر بیان نہیں کرسکے اور اپنی درماندگی اور بیچارگی کو چھپانے کے لئے کہا، بادشاہ! یہ خواب نہیں ہے بلکہ پریشان خیالی ہے۔

ہم سچے خواب کی تعبیر تو دے سکتے ہیں مگر خیالات کا حل ہمارے پاس نہیں ہے۔

بادشاہ اس جواب سے مطمئن نہیں ہوا اسی اثناء میں ساقی کو اپنا خواب اور حضرت یوسف کی تعبیر کا واقعہ یاد آگیا۔ ساقی نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا اگر آپ فرمائیں تو میں اس کی تعبیر لاسکتا ہوں۔ بادشاہ کی اجازت سے وہ اسی وقت قیدخانہ پہنچا اور حضرت یوسف کو بادشاہ کا خواب سنا کر عرض کیا آپ اس خواب کا تجزیہ کیجئے۔ آپ سچائی اور تقدس کے پیکر ہیں، آپ ہی  اس کو حل کرسکتے ہیں۔ قرآن پاک فرماتا ہے

کہا یوسف نے، تم لگاتار سات برس کھیتی کروگے۔ اپنے

استعمال کے علاوہ سب کی سب بالوں کو محفوظ کردو۔ اس

کے بعد سات برس سختی کے آئیں گے جن میں کوئی فصل

نہ ہوگی۔ اس وقت یہ محفوظ غلہ تمہارے کام آئے گا۔

اس خواب سے جہاں خواب یا خواب میں دیکھے ہوئے حالات کی تائید ہوتی ہے وہاں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خواب مستقبل کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ جس کو ہم غیب کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔

میرے عزیز! انسان خواب اور بیداری کے حواس کا مجموعہ اس لئے ہے کہ اس کے ساتھ غیب کے حواس چپکے اور لپٹے ہوئے ہیں۔ اگر انسان کے اندر خواب کے حواس یا مستقبل کے حالات سے متعلق تحریکات نہ ہوتیں تو انسان کبھی بھی مستقبل میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ جنت جہاں ماضی ہے وہاں مستقبل بھی ہے جو انسان کا اپنا اصلی مقام اور وطن مالوف ہے۔ اگر بیداری کے حواس خواب کے حواس سے زیادہ ہوتے تو انسان خواب کی دنیا (جنت، دوزخ) میں اپنے ارادہ کے تحت اپنے لئے کوئی مقام منتخب نہیں کرسکتا تھا۔

جنات کو انسانوں سے زیادہ ہمدرد اور غم خوار کہہ کر انسانوں کی ہرگز توہین نہیں ہوئی کیونکہ فی الواقع ایسا ہی ہے۔ وہی انسان جنات سے معزز و محترم ہیں جو اشرف المخلوقات کے دائرے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ عام آدمی اشرف المخلوقات کہلانے کا ہرگز مستحق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں۔

زمین پر چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں اُڑنے والے کسی

پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں۔ (سورۃ انعام)

حقائق بہت تلخ ہوتے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ جنات میں انسانوں سے زیادہ عارف ہوتے ہیں۔ اشرف المخلوقات اس انسان کو کہا جاتا ہے جو زماں اور مکاں کی حد بندیوں سے آزاد ہو کر خالق حقیقی کا عرفان رکھتا ہو اور عرفان بھی کائنات میں عام موجودات کا سا نہیں بلکہ ایسا عرفان رکھتا ہو جس سے خائف ہو کر سماوات، ارض اور جبال نے انکار کردیا ہے کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہیں۔ ہم نے اپنی امانت پیش کی مگر سب نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہیں۔اگر ہم نے اس امانت کو اپنے نحیف کندھوں پر اُٹھالیا تو بے شک ہم نابود ہوجائیں گے اور انسان نے قبول کرلیا۔

میں نہ قوم کے جذبات سے کھیلنا چاہتا ہوں اور نہ ہی گمراہ کرنا میرا شیوہ ہے البتہ ہمارے سامنے پروگرام ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ روزنامہ حریت کے ذریعہ پاکستانیوں کو اس زندگی سے روشناس کردوں جس زندگی میں حزن ہے نہ ملال ہے۔ خوف ہے اور نہ غم ہے اور جس زندگی میں خوشیاں اور راحتیں انسان کی ہاتھ باندھی غلام ہیں۔ یہ وہ زندگی ہے جس میں انسان زماں اور مکاں کی پابندیوں سے آزاد ہو کر لامحدود وسعتوں کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ جہاں کھوکھلے نظریات، گھٹیا اخلاق اور بیہودہ عادات کو قطعاً دخل نہیں ہے۔

آپ لکھتے ہیں کہ مضمون پڑھ کر قاری تجسس کے عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ آپ تجسس کو عذاب بتارہے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اگر زندگی میں سے تجسس اور تلاش کو نکالا جائے تو زندگی ناپید ہوکر رہ جائے گی۔ آدم کی پیدائش سے آج تک نوع انسان کی مجموعی زندگی جن مراحل سے گزری ہے ان میں ہر مرحلہ تجسس اور تلاش کے تانے بانے کے ساتھ بنا ہوا ہے۔ اس صدی کے انسانوں کو جس قدر وسائل آج مہیا ہیں اور جتنی قسمیں علوم و فنون کی آج ہمارے سامنے ہیں کیا وہ سب تلاش کے بغیر ممکن تھیں۔ آرام و آسائش سے متعلق ایجادات مثلاً ٹیلیفون، ریڈیو، ٹیلی ویژن سب کے سب تجسس ہی کی وجہ سے موجود ہیں۔

 

دعاگو

عظیمی

۱۳، جنوری ۱۹۶۹ء

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔