Topics

ڈاکٹرناہیدصاحبہ

حضرت عظیمی صاحب

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

نظریہ رنگ و نور کی تھیوری یہ ہے کہ زندگی کی بنیاد روشنیوں پر قائم ہے۔ مادی جسم ان روشنیوں کے تنزل سے وجود میں آتا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ نے لفظ ”نسمہ“ استعمال کیا ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ نسمہ کی ماہیت اور اس کے اعمال پر تفصیل سے روشنی ڈالئے۔

ڈاکٹر ناہید، ایم۔ بی۔ بی۔ ایس

 

                                                                                                دعاگو

                                                                                                عظیمی

                                                                                                مئی ۱۹۹۷ ء؎

                                                                                        مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

 


 ڈاکٹرناہیدصاحبہ

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

کائنات کی ساخت میں بساط اول وہ روشنی ہے جس کو قرآن پاک میں ماء (پانی) کے نام سے یاد کیا ہے۔ موجودہ دور کی سائنس میں اسے گیسوں کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نسمہ کا انہی صدہا گیسوں کے اجتماع سے اولاً جو مرکب بنا ہے اس کو پارہ یا پارہ کی مختلف شکلیں بطور مظہر پیش کرتی ہیں۔ ان ہی مرکبات کی بہت سی ترکیبوں سے مادی اجسام کی ساخت عمل میں آتی ہے اور ان ہی اجسام کو موالید ثلاثہ یعنی حیوانات، نبادات اور جمادات کہتے ہیں۔ تصوف کی زبان میں ان گیسوں میں سے ہر گیس کی ابتدائی شکل کا نام نسمہ ہے۔

دوسرے الفاظ میں نسمہ حرکت کی ان بنیادی شعاعوں کے مجموعے کا نام ہے جو وجود کی ابتدا کرتی ہیں۔ حرکت…… اس جگہ ان لکیروں کو کہا گیا ہے جو خلا میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ وہ نہ تو ایک دوسرے سے فاصلہ پر ہیں اور نہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔

یہی لکیریں مادی جسم میں آپ کا واسطہ ہیں۔ ان لکیروں کو صرف روح کی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ کوئی بھی مادی خوردبین اس کو کسی شکل و صورت میں نہیں دیکھ سکتی البتہ لکیروں کے اثرات کو مادیت یا مظہر کی صورت میں پاسکتی ہے۔

جب اسکولوں میں لڑکوں کو ڈرائنگ سکھائی جاتی ہے تو ایک کاغذ جس کو گراف پیپر کہتے ہیں ڈرائنگ کی اصل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کاغذ پر چھوٹے چھوٹے چوکور خانے ہوتے ہیں۔ ان چوکور خانوں کو بنیاد قرار دے کر استاد یہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے خانوں کی اتنی تعداد سے آدمی کا سر، اتنی تعداد سے ناک اور اتنی تعداد سے گردن بنتی ہے۔ ان خانوں کی پیمائش سے وہ مختلف اعضاء کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں جس سے لڑکوں کو تصویر بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ گویا یہ گراف تصویروں کی اصل ہے یا دوسرے الفاظ میں اس گراف کو ترتیب دینے سے تصویریں بن جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح نسمہ کی یہ لکیریں تمام مادی اجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں ان ہی لکیروں کی ضرب، تقسیم سے نباتات، جمادات اور حیوانات کی تخلیق ہوتی ہے۔

تخلیقی قانون کی رو سے دراصل یہ لکیریں بے رنگ شعاعیں چھوٹی بڑی حرکات ہیں۔ اتنی ہی اور اس ہی طرز کی ٹھوس حسیات ترتیب پاتی جائیں گی، ان ہی کی اجتماعیت سے رنگ اور کشش کی طرزیں قیام پاتی ہیں اور ان ہی لکیروں کی حرکات اور گردشیں وقفہ پیدا کرتی ہیں۔ ایک طرف ان لکیروں کی اجتماعیت، مکانیت بناتی ہیں اور دوسری طرف ان لکیروں کی گردش، زمانیت کو تخلیق کرتی ہے۔

تخلیقی قانون میں نسمہ کی وہ شباہت جس کو مادی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تمثیل کہلاتی ہے اور نسمہ کی وہ شکل و صورت جس کو مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے تشخص یا جسم کہلاتی ہے۔

جس طرح تمثیل میں بھی ابعاد   (Dimensions)  ہوتے ہیں اور روحانی آنکھ ان ابعاد کے طول و عرض کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ ان کی مکانیت کو محسوس کرتی ہے۔ ماہرین روحانیات اسی تمثیل کو ہیولا کہتے ہیں۔ چیز کی موجودگی پہلے ایک تمثیل یا ہیولا کی شکل و صورت میں ہوتی ہے۔ اس کو نسمہ مفرد کہتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں یہ نسمہ مفرد جب نسمہ مرکب کی شکل اختیار کرکے مادی جسم بنتا ہے تو حرکت میں انتہائی سستی اور جمود پیدا ہوجاتا ہے اور انسان مکانیت میں خودکو قید اور بند محسوس کرتا ہے اور جب نسمہ مرکب کی ہیت نسمہ مفرد میں تبدیل ہوتی ہے تو انسان کے اوپر سے زماں و مکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ مادی جسم جن روشنیوں پر قائم اور متحرک ہے اس کو روحانیت میں نسمہ اور سائنس میں اورا (Aura)  کہا جاتا ہے۔

 

دعاگو

عظیمی

۱۷، اگست ۱۹۹۵ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔