Topics
میرے رفیق ، میرے دوست، برادر جان برابر ، دل کی آئینہ میں مکین ، ڈاکٹر محمد سلیمان خان
صاحب
وعلیکم
السلام ورحمتہ اللہ
آپ
کیا ہیں، کیا نہیں ہیں ، یہ سوچنا آپ کا کام نہیں۔ آپ کو کتنا عرصہ اس قیدو بند
کی دنیا میں سانس لینا ہیں، یہ بات بھی ایسی ہے کہ جو کسی کو نہیں بتائی گئی ہے۔
جو
بات اللہ مخفی رکھنا چاہتے ہے، بندہ کو اس بارے میں تردد نہیں ہونا چاہئے
حضرت
با یزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کو بخار نے پریشان کیا تو انہوں نے اللہ سے
درخواست کی کہ بخار سے نجات مل جائے۔اللہ نے فرمایا، بایزید! تو بھی ہمارا ، بخار
بھی ہمارا۔۔۔۔۔
یہ
جذبہ بہت اعلیٰ اور خوبصورت ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر سے زیادہ زندہ نہیں رہنا چا ہئے لیکن یہ ایثار
کہیں زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے کہ اللہ تعالیٰ۔۔۔۔۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن
کو چلانے کے لئے ہمیں منتخب کرلیں۔ ہم بار بار مریں اور پھر زندہ ہوں اور اپنے
آقا ﷺ
کے مشن کے لئے زندگی کو شمع کی طرح پگھلاتے جھومتی اور شمع کے خون کا ایک ایک قطرہ
لو بن کر روشنی پھیلا تارہے۔
ابدال
حق حضور قلندر با با اولیاء رحمتہ اللہ
علیہ کا مشن ہے کہ
تڑپتی
، سسکتی ، بے حال اور درماندہ مخلوق کو سکون سے آشنا ،
کیا
جائے۔ شیطانی گرفت سے نجات دلائی جائے،
مادیت
کے دبیز پردوں سے آزاد کر کے اس کے اوپر
غیب
کی دنیا کے دروازے کھول دئیے جائیں اور یہ
مشاہدہ
ہوجائے کہ ا س کا اصل مقام جنت ہے۔وہ
مقام
جہاں زمان و مکان نہیں، جہاں آرام وآسائش اور
سکون
کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
میرے
پیارے دوست ! اللہ تعالی آپ کو میری خواہش کے مطابق روحانی ترقی عطا فرمائیں۔آپ
بالکل دل گرفتہ نہ ہوں ۔ جو کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے کرتے رہیں، جن کاکام ہے وہ
خود انجام کو پہنچائیں گے۔ہم سب کٹھ پتلی ہیں۔۔۔۔ تار جس طرح ہلائے جاتے ہیں ہم
حرکت کرتے ہیں۔جب ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے۔۔۔۔اپنی مرضی سے قیامت تک زندہ
نہیں رہ سکتے ۔۔۔۔سانس لینے پر اختیار نہیں ہے۔۔۔۔۔تو پھر صحیح بات یہی ہے کہ کٹھ
پتلی کی طرح حرکت کریں۔
عزیز
گرامی قدر قریشی صاحب کو بہت سلام کہئے۔ صوفی صاحب کو بھی سلام کہہ دیجئے ۔ بچوں
کو دعائیں ۔ سلسلہ کے تمام احباب کو سلام و دعا ۔ محفل مراقبہ میں سب دوستوں کو
سلام عرض کردیں۔
دعا
گو
عظیمی
۲۷، اکتوبر ۱۹۸۳ء
نیلسن۔ انگلینڈ
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔