Topics
محترم
و مکرم عظیمی صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
امید ہے آپ خیر یت سے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جنات اور انسان
کی صلاحیتوں میں کیا فرق ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک بندہ اپنے عمل کے معنی و مفہوم
سے بے خبر ہے تو کیا اسے اس عمل سے فائدہ یا نقصان ہوگا۔
نیاز مند
سرفراز مجید
سرفراز مجید صاحب
وعلیکم
السلام و رحمتہ اللہ
حضرت
سلیمان علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں ایک بندہ کا تذکرہ ہوا
ہے۔ان تذکروں میں طرزفکر کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں
عفریت جن کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں میں تخت کو حاضر کردوں
گا۔ دوسری طرف بندہ یہ کہتا ہے ، میرے پاس کتاب کا علم ہے۔میں اس علم کے ذریعے اس
سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے تخت آپ کے پاس لے آؤں گا۔اس واقعہ میں لطیف نکتہ یہ
ہے کہ
جن
اور انسان میں یہ فرق ہے کہ جن خود کو وقت کے
ساتھ
پابند کئے ہوئے ہے لیکن بندہ نے وقت کی نفی کر
دی
ہے۔ بندہ کے ذہن کی وسعت لامحدود ہے اور اللہ
لامحدود
وسعت کا خالق و مالک ہے۔
اللہ
نے انسان کو وہ علم دیا ہے جو فرشتے نہیں جانتے۔ یہ بندہ کتاب کے اس علم کو جانتا
ہے کہ بشر پتلہ ہے۔۔۔پتلہ خلا ہے۔۔۔۔۔خلا یا بشر میں اللہ کی روح ہے۔۔۔۔ روح اللہ
کا امر ہے اور اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کی کرنے کا ارادہ کرتا ہےتو
کہتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔
آپ
کے دوسرے سوال کے جواب میں آپ سے سوال ہے کہ کیا دنیا کا کوئی بھی علم مفہوم
سمجھے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔اگر آپ کو اردو، انگریزی یا عربی پڑھنی آجائے
لیکن آپ زبان کے معنی و مفہوم سے واقف نہ ہو، ابھی یہ علم محض Reading کی
حد تک ہے تو کیا اس علم سے فائدہ ہوگا۔۔۔۔ کیا انگریزی کو سمجھے بغیر پڑھنے سے
نوکری ملتی ہے۔۔۔۔۔آپ بچہ کو حساب یا طبعیات کا فارمولا یاد کروادیں لیکن اسے
فارمولے کا فہم نہ ہو۔۔۔۔کیا محض پڑھ لینے سے وہ
فارمولے کا استعمال سیکھ لے گا۔
موسم
بہار میں حضرت رابعہ بصری رحمتہ علیہ سے خادمہ نے عرض کیا، مکان سے باہر آئیے اور
خالق کائنات کی صناعی اور قدرت کو ملاحظہ کیجئے۔ آپ نے فرمایا، تو اندر کیوں نہیں
آجاتی کہ خود خالق حقیقی کو دیکھ لے اور فرمایا میں صرف صنعت کو نہیں ۔۔۔۔خالق کو
بھی دیکھتی ہوں۔
لوگوں
نے سوال کیا کہ آپ جس ہستی کی عبادت کرتی ہیں کیا آپ اس کو دیکھتی بھی ہیں۔۔۔۔فرمایا،
اگر میں نہ دیکھتی تو عبادت کیسے کر سکتی تھی۔
چند
بزرگوں کی ایک جماعت حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ایک
شخص سے آپ نے پوچھا، تم خدا کی عبادت کس لئے کرتے ہو۔۔۔۔اس نے کہا ، دوزخ کے سات
طبق نہایت عظیم ہیں۔ہر ایک کو اس کے اوپر سے گزرنا پڑے گا۔خوف کی وجہ سے عبادت
کرتا ہوں۔
حضرت رابعہ بصری رحمتہ
علیہ نے فرمایا
بندگی
یہ ہے کہ خوف یا لالچ کی وجہ سے نہیں۔۔۔۔
اللہ
کو اللہ کے لئے یاد کیا جائے۔
ان
لوگوں نے پوچھا آپ عبادت کیوں کرتی ہیں، آپ
اللہ سے کوئی امید نہیں رکھتیں ۔۔۔۔۔حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ نے
فرمایا
ہمارے
لئے کافی ہے کہ ہم اللہ کی عبادت اس لئے کریں کہ اللہ خوش ہوتا ہے اور اللہ کی
تسلیم و رضا ’’ زندگی‘‘ ہے۔
دعا
گو
عظیمی
۹ ،
اگست ۱۹۸۴ء
1-D-1/7 ، ناظم آباد ۔ کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔