Topics

دیباچہ

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضر ت خواجہ شمس الدین عظیمی صا حب نے کتا ب تذکرہ  قلندر بابا اولیا ء میں تحر یر فرما یا ہے کہ قدرت اپنے پیغا م کو پہنچانے کے لیے دیے سے دیا جلا تی رہتی ہے معرفت کی مشعل ایک ہا تھ سے دوسرے ہا تھ میں منتقل ہو تی رہتی ہے ۔ آخر یہ قطب ، غوث ، ولی ، ابدال ، صوفی ، مجذوب اور قلندر سب کیا ہیں ۔ یہ قدرت کے وہ ہا تھ ہیں جو روحا نی  روشنی کی مشعل کو لے کر چلتے رہتے ہیں ۔ اس روشنی  سے اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ہیں اوردوسروں کو بھی روشنی کا انعکا س دیتے ہیں ۔ اور جس کو اپنے اس فیض سے مالا مال کر تے ہیں اس کا دست حق پرست معرفت اور با ب معرفت کے مرکز اور شہر حضر ت مولا علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ سے ملا دیتے ہیں جو دربا ر رسالت ﷺ میں اس عقید ت  کو پیش کر نے اور نذر گزارنے میں ہمہ وقت مصروف نیاز ہیں ۔

صر ف تاریخ کے اوراق نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر ان بزرگوں کی ایسی ایسی داستانیں اور چشم دید باتیں  اب تک زندہ اور محفوظ ہیں جن کی دعاؤں سے مردوں کو زندگی ، بیما روں کو شفا ، بھو کوں کو غذا ، دکھیوں کو عطا، غریبوں کو زر، بے حا ل لوگوں کو با ل و پر ، بے سہا را اور بے کس لوگوں کو اولا د اور ما ل و متا ع کے انعاما ت ملتے رہتے ہیں ۔

عظیمی صا حب نے اما م سلسلہ عظیمیہ محمد عظیم بر خیا ء المعروف قلندر با با اولیا کے حوالہ سے کتا ب میں تحریر فرما یا ہے کہ

ابدال حق قلندر با با اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ  اوالسلا م کے آسما ن علم و آگا ہی  میں ایک ایسا درخشند ہ ستا رہ ہیں  جن کے با رے میں حضور اکرام ؐ  کا ارشا د ہے۔۔۔۔

میں اپنے بعد اللہ کی کتا ب اور اپنی اولا د چھو ڑ کر جا رہا ہوں ۔

 کتا ب تذکرہ  قلندر با با اولیا ء میں با با صا حب رحمتہ اللہ علیہ کے شامل اشا عت مکتوبا ت میں سے ایک خط جو آپ نے ایک صا حب کے استفسا رات کے جوا ب میں تحریر کروایا تھا قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے ،

          بسم اللہ الرحمن الرحیم

          برادرعزیز سلمہ ٰ اللہ تعالیٰ سے بہت دعا۔

 حسب ذیل عبا رت تمہا رے تحر یر کر دہ سوالا ت کے جوا ب میں لکھی جا رہی ہے ۔ بظا ہر سوالا ت با لکل مختصر اور      آسا ن ہیں لیکن ان کا جواب زیا دہ غور طلب ہے اور تفصیل چا ہتا ہے ۔ اگر پو ری باتیں سمجھنے میں دقت پیش آئے تو با ر با ر پڑھ کے اور غور کر کے الفا ظ کا مفہو م اچھی طر ح  ذہن نشین کرلینا ۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا صر ف کا غذ پر لکھا رہنا کا فی نہیں ہے ۔ ان کا حا فظہ میں نقش کرنا ضروری ہے ۔

لو ح محفوظ سے ایک نور آتا ہے وہ اس طر ح پھیلتا ہے  کہ ساری کا ئنا ت اس کی گرفت میں ہو تی ہے ۔ اس کے پھیلنے کی طرزیں کسی ایک سمت میں نہیں ہوتیں بلکہ ہر سمت میں ہو تی ہیں۔

اسی بات کو دوسرے الفا ظ میں اس طر ح کہیں گے کہ اس نور کے پھیلنے کی کو ئی سمت نہیں ہو تی ۔ اب تم سمت نہ ہو نے کا مطلب سمجھ لو کہ سمت نہ ہو نا کیا چیز ہے اور نور کا تما م سمتوں میں پھیلنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ یہ ساری با تیں قرآن پا ک میں بالتصریح اللہ تعا لیٰ نے ارشا د فرما ئی ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ ان ارشادات کو متشا بہا ت کہہ کر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔

تحر یر میں زیا دہ گنجا ئش نہیں ہے ۔ صر ف ایک مثال دے کر میں تمہیں بتا نا چا ہتا ہوں  ۔ اس مثال پر غور کرو۔ چند خلا با ز خلا میں جا چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ

o       ۱۰۰ میل سے زیا دہ بلندی پر ایک تو با لکل بے وزنی کی کیفیت طا ر ی ہو جا تی ہے ۔

o       دوسرے یہ کہ زمین یا تو بالکل گول یا تقریباً  گول نظر آتی ہے ۔

o       ایک نے کہا ہے کہ گیند نما نظر آتی ہے ۔ تم نے خود بھی مشا ہد ہ میں دیکھا ہے کہ پپیتہ کی صورت ہے۔

اب صحیح صورت حا ل سمجھنا چا ہو تو یہ نظر آئے گا یا یہ محسو س ہو گا یا یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ ساڑھے تین ارب انسا ن اور چلنے پھر نے والے چو پائے سب کے سب ٹانگوں کے بل زمین سے لٹکے ہو ئے ہیں ۔ ہر انسا ن یہ کہتا ہے کہ میں زمین پر پیروں کے بل چل رہا ہوں  ۔ سمجھ لو کہ وہ کتنی غلط بات کہہ رہا ہے ۔ جب سے نوع انسا نی آبا د ہے ، وہ تما م لو گ جن پر حقیقت منکشف نہیں ہو ئی ہے یہی کہتے ہیں ۔ یہی سمجھتے ہیں ۔

غور کر و کہ جب آدمی پیروں کے بل لٹک رہا ہے تو چل کیسے سکتا ہے۔ لٹکنے کی حا لت تو بالکل جبر ی ہے ۔ اس کا یہ کہنا کہ میں چل رہا ہوں سراسر غلط ہے ۔ جبر ی  حالت میں اسکا ارادہ بے معنی ہے ۔ اس لئے کہ اس کی اپنی کو ئی حر کت ممکن نہیں۔

یہ با ت تو قرین قیا س ہے کہ جن تاروں میں اسکے پیر بندھے ہو ئے ہیں وہ تار حر کت کر تے ہوں اور ان کے ساتھ پیر بھی حر کت کر تے ہوں ۔ ان تاروں سے انسا ن کے ارادے کا کیا تعلق جب کہ انسا ن کو ان تاروں کا کو ئی علم ہی نہیں ۔ با وجود اتنی صریح غلطیوں کے وہ دعوے کر تا ہے کہ میرا  سر بلند ی کی طر ف ہے ، اور میرے پیر پستی کی طر ف اور میں چلتا پھر تا ہوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ایک بنوا لیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بنوا حقیقت ہے ۔ دراصل نہ کو ئی سمت ہے  ، نہ انسا ن حر کت کر نے کی قدر ت رکھتا ہے ۔ ہا ں صر ف نیت کر سکتا ہے ۔ چنا چہ اس نے اپنی نیت ہی میں لا شما ر دعو ے جمع کر لئے  ۔ انسا ن کے با قی تما م دعوؤں کا اس ہی دعو ے پر قیا س کر لو ۔ اللہ تعالیٰ نے قر آن پا ک میں ہر مشا ہد ہ  کو رد کیا ہے ۔ جگہ جگہ فرما یا ہے ۔

تم نہیں سمجھتے ایسا ہے ، ایسا ہے اور تم نہیں دیکھتے۔

ایک جگہ فر ما یا ہے ۔

          تم دیکھتے ہو پہا ڑ اور گما ن کر تے ہو کہ یہ جم رہے ہیں۔

اللہ تعا لیٰ نے جس چیز کو قرآن پا ک میں غیب فرما یا ہے وہ انسا ن کا غیب ہے ، اللہ کا غیب نہیں ہے ۔ ظا ہر ہے کہ جب وہ اللہ کے لئے غیب نہیں ہے تو اللہ کے لئے حضور ہے ۔ جو اللہ کا حضو ر ہے  وہ حقیقت ہے جو انسا ن پر منکشف نہیں ہے ۔ اس لئے جو اس کا مشا ہد ہ  ہے وہ حقیقت نہیں ہے ، اس ہی لئے غلط ہے ۔ بدیں سبب ہر مشا ہد ہ کو ردکیاہے ۔ اب سا ری حقیقت علم حضو ر ی ہے ۔ یہ علم حضو ر ی اللہ کی طر ف سے ملتا ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما ئیں ۔ قر آن پا ک میں اس کی بھی وضا حت ہے ۔ا للہ تعالیٰ نے فرما یا ہے ۔

                             جس نے ہما رے لئے جہد کیا ہے ، ہم اس پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں ۔ العنکبوت :آیت ۶۹

          قرآن پا ک میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ ملکۂ سبا کے قصے میں ہے

جب سلیما ن علیہ السلا م نے کہا اپنے دربا ریوں سے کہ تم میں کو ن اس کا تخت جلد ی لا سکتا ہے تو جنا ت میں سے ایک نے کہا کہ جتنی دیر میں آپ دربا ر بر خا ست کریں ، میں تخت حا ضر کردوں گا۔

          دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں۔

  ایک دوسرے شخص نے کہا پلک جھپکنے بھی نہ پا ئے گی کہ تخت یہا ں موجود ہو گا۔۔۔ اور تخت آگیا ۔ النمل :۴۰

          اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی خصوصیت بتا ئی ہے کہ وہ کتا ب کا علم رکھتا تھا ۔ جتنے صحا ئف آسما نی ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سب کو کتا ب کے نام سے یا د کرتے ہیں ۔ ان میں قرآن بھی ہے ۔ چنا چہ قر آن میں یہ علم مو جود ہے  جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خو د فرما یا ہے اور با ر با ر قر آن کو کتا ب کے نا م سے موسوم کیا ہے ۔ جو قرآن نہیں سمجھتے وہ جو بھی چاہیں کہیں ، ان کی زبا ن کون پکڑ سکتا ہے لیکن قرآن خو د ان کی تردید کرتا ہے  اس لئے ضروری ہے کہ تم عر بی پڑھو اور قر آن کو قر آن کے الفا ظ میں سمجھو۔ بغیر کسی تاویل اور بغیر کسی اثر کے بالکل غیر جانب دار ہو کر، اس تصور  سے کہ اللہ تعالیٰ کیا فرما تے ہیں ۔ جہا ں تک سمجھنے کا سوال ہے ، اللہ تعالیٰ نے خو د وعدہ فرما یا ہے کہ

                   میں نے تمہا رے لئے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے

                   ۔۔۔۔۔۔۔ ہے کو ئی سمجھنے والا۔۔۔۔۔۔۔

          یہ صلا ئے عا م ہے ۔ سور ہ قمر میں چا ر مرتبہ یہ با ت کہی گئی ہے ۔

          آمد م بر سر مطلب ۔ تم یہ با ت سمجھ گئے ہو گے کہ سمت کو ئی چیز نہیں ہے ۔ یہ انسا ن کی اپنی مفروضہ اور قیا س کر دہ ہے ۔ جیسا کہ اوپر بیا ن ہوا ہے علم حضور ی کے علا وہ کو ئی علم موجو د نہیں ہے ۔ انسا ن کا حا فظہ اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ علم حضو ر ی کی کسی ایک طر ز کو بھی اپنے اندر محفو ظ کر لے ۔ چنا نچہ لوح محفوظ  سے پھیلنے والا نور انسا ن کو اطلا عات فراہم کر تا ہے تو اپنی غر ض اور مطلب برآری کے نقطۂ نظر سے کا م لے کر ان اطلا عات کا۹۹۹  فی ہزا ر تو رد کردیتا ہے ۔ ایک فی ہزا ر کو مسخ کر کے توڑ مروڑ کے حا فظہ میں رکھ لیتا ہے ۔ یہی مسخ شدہ اور بگڑ ے ہو ئے خدوخا ل ، اس کے تجر با ت کا ، مشا ہدا ت کا ، عادات اور حر کا ت کا سانچہ بن جا تے ہیں ۔ اب جتنی اطلا عات وہ اخذ کر تا ہے ، ان ہی سانچوں میں ڈھلتی چلی جا تی ہیں ۔ یہ ہے انسا ن  کا تما م کارنا مہ اور اس کی معین کرد ہ  اور فر ض کر دہ سمتیں ، فارمولے اور اصول۔ اس ہی خرافا ت کے با رے میں وہ با ر بار یہ کہتا رہتا ہے کہ یہ ہے میرا تجر بہ، یہ ہے مشا ہدہ ، یہ ہے علم طبیعی ۔

          تمہا رے ذہن میں یہ بات تو آگئی کہ

  جو نو ر پوری کا ئنا ت میں پھیلتا ہے  اس میں ہر قسم کی اطلا عات ہو تی ہیں جو کا ئنا ت کے ذرہ ذرہ  کو ملتی ہیں ۔ ان اطلا عات  میں چکنا ، سونگھنا ، سننا ، دیکھنا ، محسوس کرنا، خیا ل کر نا، وہم و گما ن وغیر ہ وغیر ہ  زندگی کا ہر شعبہ ، ہر حر کت ، ہر کیفیت  کا مل طرزوں کےساتھ موجود ہو تی ہے ۔

ان کو صحیح حا لت میں وصول کر نے کا طریقہ صر ف ایک ہے ۔ انسا ن ہر طر ز میں ، ہر معاملہ میں ، ہر حالت میں کامل استغنیٰ رکھتا ہو۔۔۔ ۔مسخ کرنیوالی اس کی اپنی مصلحتیں ہو تی ہیں ۔  جہاں مصلحت نہیں ہے ، وہاں استغنیٰ ہے ، غیر جانبدا ری ہے اور اللہ کا شعار ہے ۔ اب جو حرکت ہو تی ہے وہ پو ری کا ئنا ت پر محیط ہے اور پور ی کا ئنا ت میں عمل کر تی ہے ۔

          اس چیز کو پھر ایک دفعہ سمجھ لو ۔  یہ کو ئی با ریک با ت نہیں ہے ۔ صر ف توجہ کی ضرورت ہے ۔ انسا ن کی ذاتی مصلحتیں  اپنے لئے نو ر کی شعاعوں کو محدود کرلیتی ہیں ۔ یہ محدود شعا عیں اپنا کا ئنا تی عمل تر ک نہیں کرسکتیں ، وہ تو جا ری رہتا ہے ۔ اب انسا ن کا ایک با طل تصور جو اس نے شعا عوں سے وابستہ کر لیا ہے ، غلط امیدیں بن جا تا ہے ۔ یہی نا کا می  ہے ۔ یہی انسا نی مصیبت ہے ۔ سیدھی سادی بات ہے کہ جس نور کا تعلق ساری کا ئنات سے ہے وہ ایک فرد واحد کے لئے کیسے مخصوص ہو سکتا ہے ۔ انسا ن اگر ذاتی اغرا ض کی قید و بند میں مبتلا نہیں ہے تو ان شعا عوں کو پو ری کا ئنا ت پر محیط دیکھتا اور محیط سمجھتا ہے ۔ چنا چہ شعاعو ں کا اور اس کے زاویہ نظر کا ایک خا ص  ارتبا ط قا ئم ہو جاتا ہے ۔ یہ ارتبا ط وہ شے ہے جو اللہ کے قا نون کے زیر اثر شعاعوں کے لئے محل توجہ ہے ۔ اب اس کے مفا د کا تحفظ شعاعیں خود کرتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اگر وہ کہے دن تو شعاعوں کو دن پیدا کرنا پڑے گا ۔ اگر وہ کہے رات توشعاعوں کو رات کی تخلیق کر نی پڑے گی۔ اللہ کا شعارشعا عوں کو اس با ت کا حکم دیتا ہے کہ وہ دوسنتیں پوری کریں۔۔۔۔ ایک کا ئنا ت کے لئے عمل کرنا، دوسری اس فر د کے مفا د میں عمل کرنا جس نے ان شعاعوں سے ارتبا ط قا ئم کیا ہے ۔

          جس وقت حضر ت اویس قرنی رضی اللہ عنہ اور حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کی ملا قا ت ہو ئی تو حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے حضر ت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی تھی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت کریں۔ اس پر حضر ت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے دوسوال کیے ۔

                   ۱۔یا عمر! آپ اللہ کو جا نتے ہیں ۔

          انہوں نے جواب دیا ۔ ہا ں میں اللہ کو جا نتا ہوں۔

                   ۲۔ یا عمر ! اللہ بھی آپ کو جانتا ہے ۔۔۔۔

          جواب دیا، اللہ بھی مجھے جانتا ہے ۔

          ان دونوں باتوں کا مطلب بالکل واضح ہے ۔ صر ف یہ کا فی نہیں ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں قدم اٹھا ئے  اور کام پورا ہو جا ئے۔ وہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قدم صرف اللہ کے لئے اٹھا یا گیا ہے یا اور بھی مصلحتیں شا مل ہیں ۔ اس میں جنت بھی ایک مصلحت ہے ۔ اور بہت سی نیکیا ں بھی مصلحت  ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس وقت تک نہیں پہچا نتا جب تک کہ مقصد صر ف اللہ کی ذات نہ ہو۔ اگر ایک آدمی کا مقصد جنت ہے  تو جنت اسے جا نتی ہے ۔ کہتی ہے " آؤ لبیک"

یہ با ت یا درکھنی چا ہئے کہ روحانیت میں اللہ کے ساتھ کو ئی دوسرامقصد ، کو ئی دوسری غایت شر یک کرنا کفر ہے ۔

          تم نے جو خواب لکھا ہے  اس کے الفا ظ یہ ہیں ۔

  میں آ پ کے قدموں میں بیٹھا رورہا ہوں  اور کہہ رہا ہوں کہ بابا جی !میری اماں کہا ں گئی ۔ میری اما ں مجھے دلادو۔

          اطلا ع کے تین حصے ہیں ۔ ایک حصہ میر ی صورت ہے ۔ دوسرا حصہ تمہاری اپنی صورت ہے ۔ تیسرا حصہ اما ں ہیں  جو موجود نہیں ہیں ۔ اطلا ع کا انکشا ف ہوتا ہے یہا ں سے کہ تم ایک جگہ ہو۔ اس جگہ تمہا ری حیثیت ایک ایسے سوال کی ہے جو بہت سے سوالا ت کا مجمو عہ ہے ۔ اس مجمو عہ کا نا م ہے اماں یعنی زندگی کے بہت سے راستے جس نقطہ سے شروع ہو تے ہیں اور انسا ن یہ طے نہیں کرسکتا کہ مجھے کن راستوں پر سفر کرنا ہے ۔ قدرتاً ماں کی پوزیشن یہی ہے کہ  وہ زندگی کو ایک ایسے نقطے پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے  جہاں سے زندگی کا سفر شروع ہو تا ہے ۔ راستے لا شما ر ہیں ، انسا ن کے سامنے یہ مرحلہ ہے کہ وہ جس راستہ پر سفر شروع کر ے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راستہ غلط ثا بت ہو جا ئے اور اسے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے۔

          یہا ں وہ اپنی روح سے رہنما ئی چاہتا ہے  لیکن روح کو کسی روپ میں متشکل دیکھتا ہے  کیوں کہ اسے ہر شے کو مشہو د بنا کے دیکھنے کی عادت ہے ۔ جن دنوں میں تم نے یہ خوا ب دیکھا ہے ، ان دنوں میں ایسے خیا لا ت کا زیا دہ زوراور دبا ؤ رہا ہے ۔ مذکورہ با لا خواب ۱۹جون کا ہے ۔ ذہن پر کیفیت ہفتوں پہلے سے مسلط تھی ۔ ا س کا جواب روح سات جون کو خواب میں دے چکی ہے ۔ سا ت جون کا خواب تم نے اپنے الفاظ میں اس طرح دیکھا ہے ۔

          ایک آدمی نے مجھے آکے کہا کہ قبلہ بد ر صاحب نے تم کو بلا یا ہے ۔ میں فوراً روانہ ہو گیا اور تھو ڑی دیر کے بعد ایک مکا ن میں داخل ہو گیا۔ دروازہ پر ایک عورت ملی ۔ اس عورت نے کہا کہ بد ر صاحب اس کمرے میں تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔ کمرے میں داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ بدرصاحب  میز کے سامنے بیٹھے ہو ئے کچھ کر رہے ہیں ۔ مجھے دیکھ کر وہ کھڑے ہو گئے ۔ میں نے سلا م عرض کیا ۔ انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا اور میری زبا ن اپنے منہ میں لے کر زور سے دبا ئی جس سے میری آنکھ کھل گئی ۔

          اس خوا ب میں مذکورہ سوالا ت کا پورا جواب موجود ہے ۔ یعنی مستقبل میں اللہ کی طر ف سے معاونت کا بندوبست ہو گا۔ غیب سے ایسا پروگرام بن جا ئے گا جو آئندہ زندگی کو کا میا ب بنا نے کا ضا من ہے ۔ ہر چیز بروقت ہو تی جا ئے گی ۔ واضح طور پر اس خوا ب میں سب چیزیں موجود ہیں ۔۔۔ تمہارا بلایا جانا ، درمیان میں کسی کی رہنما ئی اور آخر ی منزل میں انسپا ئریشن  ( الہا می خیا ل ، Inspiration) کی تکمیل غیب ہے ۔ یہ سارے ذرات خواب میں الگ الگ موجود ہیں ۔ دنیا کے معا ملا ت با قی رہے ، وہ سار ے کے سارے ان ہی کڑیوں کا سازوساما ن ہیں ۔ ان کا بر وقت موجود ہونا ، عمل میں آنا یقینی ہے ۔

                   تم نے حسب ذیل مراقبہ لکھا ہے ۔

          ۱۔رات کو سبق پڑھتے ہو ئے سارا جسم زمین سے اٹھ جاتا ہے ۔ مگر جب آگے چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو گر نے لگتا ہوں۔

          ۲۔ جب آپ کا تصور کرتا ہوں تو آ پ اور ناظم آبا د کا پورا مکا ن میرے سامنے ہوتا ہے  مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نا ظم آبا د میں ہوں یا ناظم آبا د اور میرے پا س آگئے ہیں ۔

          اللہ تعالیٰ نے قر آن پا ک میں فرما یا ہے ۔

          هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْب۔ البقرہ ۲ تا ۳

                             مفہوم:یہ کتا ب ان لوگوں کو روشنی دکھا تی ہے جو اپنے اندر اللہ کے با رے میں ذوق رکھتے ہیں ۔

          غیب سے مراد وہ تما م حقا ئق ہیں جو انسا ن کے مشا ہدا ت سے با ہر ہیں ۔ وہ سب کے سب اللہ کی معرفت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ایما ن سے مرا د ذوق ہے ۔ ذوق وہ عادت ہے جو تلا ش میں سرگرداں رہتی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ اسے کو ئی معاوضہ ملے گا۔  بلکہ صر ف اس لئے کہ طبیعت کا تقاضہ پورا کرے ۔

  متقی سے وہ انسا ن مراد ہے  جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کا م لیتا ہے ۔ ساتھ ہی بد گما نی  کو راہ نہیں دیتا ۔ وہ اللہ کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کا ئنا ت کا کو ئی روپ اسے دھو کا نہیں دے سکتا۔ و ہ اللہ کو بالکل الگ سے پہچا نتا ہے اورا للہ کے کاموں کو بالکل الگ سے جانتا ہے ۔

          صحیح طور سے پہنچاننے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر ذوق موجود ہے ۔

          یہ نہ سمجھ لینا کہ ہر انسا ن کے اندر یہ ذوق موجود نہیں ہے ۔ درحقیقت وہی ذوق لا ئف اسٹریم( چشمۂ حیا ت Life Steam ) ہے ۔ اس ہی زندگی کی بنا ہے ۔ انسا ن اس کو استعما ل کر ے یا نہ کرے یہ اس کی اپنی مرضی اور مصلحت ہے ۔ یہ ذوق ہی انسا ن کے اندر بستا ہے ورنہ انسا ن خلا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ  نے قر آن پا ک میں ارشا د کیا ہے 

                             میں نے انسا ن کو بجنی مٹی سے بنا یا ہے ۔

          یہا ں مٹی کی نیچر (فطرت Nature) بیا ن کی ہے جو خلا ہے ۔ اب یہ با ت تمہا رے لئے سمجھنا بہت آسا ن ہے کہ ذوق میں نہ وزن ہوتا ہے ، نہ ذوق کے لئے فا صلہ کو ئی معنی رکھتا ہے ۔ نہ ذوق زمین آسما ن کی حد ود کا پا بند ہے ۔ نہ اسے وقت پا بند بنا سکتا ہے ۔ یہی ذوق چلتا پھر تا ہے ۔ یہ با ت ضرور ہے کہ انسا ن اس سے اس وقت تک متعا رف نہیں ہوتا جب تک اس سے تعارف حاصل نہ کرے ۔ جب تعارف حا صل کرلیتا ہے تو اسے معلو م ہو جاتا ہے  کہ یہی ذوق انسا ن ہے ۔ یہ پو ری کا ئنا ت میں آزاد ہے ۔ فرشتوں کا سربرا ہ  ہے ۔ اللہ کی بہترین صنعت ہے اور کا ئنا ت میں اللہ کا نا ئب ہے ۔ نہ وہ پیروں سے چلنے اور ہا تھوں سے پکڑنے کا پا بند ہے  ۔ نہ وہ آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا محتا ج ہے ۔ یہ ساری خرافا ت انسا ن نے آپ ہی تخلیق کی ہیں اور آپ ہی ڈھول بجا تا پھر تا ہے کہ ہا ئے میں تو بالکل مجبو ر ہوں۔

          تم یہ سوچو گے کہ کتنے ہی آدمی جو اللہ تعالیٰ  سے تعارف حا صل کر سکے وہ تو بہر صورت آزاد نہیں ہیں ۔ انہیں ہر معاملہ میں آذاد ہونا چا ہیے۔

یہ صحیح ہے کہ وہ آزاد ہیں مگر ساتھ ہی وہ نوع انسا نی کے معاشرے کی رسی میں بندھے ہو ئے ہیں ۔ ہر دور میں اس ہی کمزوری نے ایسے لوگوں کی آزادی کو ادھورا رکھا ہے ۔

          جس کا نام زید ہے وہ اس ہی ذوق کا پٹرن (طرز Pattern) ہے ۔کو ئی پیٹرن ساکت و صامت پنجرہ نہیں بلکہ بولتا ، چلتا پھرتا، کھاتا پیتا ، سوچتا سمجھتا انسا ن ہے ۔ فرش سے عرش تک اس کا ایک قدم ہے ۔ سوئی کا روزن اور آسما نوں کی کھلی فضا ایک ستا رہ سے دوسرے ستارے تک کا فاصلہ اس کے لئے ایک ہی معنی رکھتا ہے ۔ وہ نہ کہیں رکتا ہے ، نہ کھٹکتا ہے ۔ افسو س یہ ہے کہ وہ خو د کو جانتا نہیں کہ میں کیا ہوں اور کا ئنا ت کیا ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نو ع انسا نی پر یہ سب سے بڑا احسا ن ہے کہ انہوں نے ان تما م رازوں کو واشگا ف کر کے رکھ دیا ۔ یہ نہ سمجھنا کہ یہ سب راز انہوں نے ازخود منکشف کردیئے تھے بلکہ ان پر اللہ نے کھو لے جن کو من وعن انہوں نے قرآن کی صورت میں ریکا رڈ کرادیا ۔ انہوں نے ساری زندگی کی جفا کشی سہہ کر اس اما نت کو نوع انسا نی کے حوالے کیا۔ نوع انسا نی  نے جو قدر کی ہے ، وہ ظا ہر ہے ۔ اللہ نے اس ہی علم کو کتا ب کا علم فرما یا ہے ۔ ہر انسا ن اس سے فا ئدہ  اٹھا سکتا ہے ، چا ہے اس کا نا م زید ہو ، بکر ہو یا عمر ہو۔

          تم نے لکھا ہے کہ  چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو گرنے لگتا ہوں ۔ یہ اس وجہ سے ہے  کہ ابھی تم انسان سے اچھی طرح متعارف نہیں ہو جو حقیقی انسا ن ہے ۔ تم یہ خط بغور پڑھنا۔ اگرکو ئی لفظ یا طرز بیان تمہیں مشکل محسوس ہواسے با ر با ر پڑھ کر سمجھ لینا۔رات کے وقت فرصت بیٹھ کر حر ف بحر ف اس خط کی نقل کرنا اور وہ نقل اپنی فائل میں محفوظ کرلینا ۔ اس خط کی نقل کرنا تمہارے لئے اشد ضروری ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ  عبارتیں اور مفہوم اچھی طرح تمہا رے حا فظہ میں منتقل ہو جا ئیں۔ پھر اس نقل کا با ر با ر پڑھنا بھی ضروری ہے ۔ جب تم اپنے ہاتھ کی لکھی ہو ئی تحریر کو با ر با ر پڑھنے میں آسا نی محسو س کروگے اور ذہن کو لفظوں کے معانی میں مرکوز رکھ سکو گے ، میرے لکھے ہو ئے لفظوں کو پڑھنے میں ذہن پر الگ سے جو با ر پڑسکتا ہے اس بار سے تمہا را ذہن محفوظ رہے گا۔

          سلسلہ کے سب بہن بھا ئی تمہیں یا د کر تے ہیں اور مزا ج پوچھتے ہیں ۔

                                                بہت یا د سے

                                                دعا گو

                                                حسن اخریٰ محمد عظیم

                                                ۱بجے شب ، ۱۹ اگست ، ۱۹۶۳ء

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔