Topics

رفعت صدیقی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

۱۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ اچھائی اور برائی کیا ہے۔

۲۔ روحانی علوم کے لئے مرشد کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔

۳۔ بندہ جب حقیقت کی تلاش میں نکلتا ہے تو کیا اسے خود معلوم نہیں ہوجاتا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔

شکریہ

 رفعت صدیقی


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

رفعت صدیقی صاحبہ

دانشوروں کا تجزیہ ہے کہ زندگی دراصل خیالات کی ایک فلم ہے اور یہ فلم دماغی اسکرین پر تسلسل اور تواتر  کے ساتھ ڈسپلے  (Display) ہورہی ہے۔ خیالات کے بارے میں غور و فکر ہمیں اس حقیقت سے آشنا کرتا ہے کہ ایک ہی خیال کو مختلف معانی پہنانے کا نام تکمیل ہے۔ بھوک کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو پیٹ بھرنے کے مخصو عمل کو اچھا قرار دیتے ہیں اور پیٹ بھرنے کے اسی عمل کو برائی سے منسوب کرتے ہیں۔

شادی ایک عمل ہے جس پر نوع کی بقا کا انحصار ہے۔ اگر قاعدوں اور ضابطوں کے ساتھ اس عمل کی تکمیل ہوتی ہے تو یہ خیر ہے اور یہی عمل متعین قاعدوں اور ضابطوں کے خلاف کیا جائے تو برائی ہے حالانکہ نتائج کے اعتبار سے عمل کے دونوں رخوں کا ایک ہی نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔

عمل کی پہچان یہ ہے کہ ایک عمل کرنے سے ضمیر خوش ہوتا ہے اور اس کے اندر سکون اور اطمینان کی لہریں موجزن ہوتی ہیں۔ عمل کی دوسری پہچان یہ ہے کہ ضمیر ناخوش ہوتا ہے اور آدمی کو اس عمل سے ندامت ہوتی ہے۔

انسان دراصل ایک درخت ہے اور اس کی زندگی کے اعمال و کردار درخت کے پھل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ یہی صورت حال اعمال کی ہے۔ صداقت کا فیصلہ ماخذ سے نہیں …… نتائج سے مرتب ہوتا ہے۔ کسی کے اندر نیکی کے تصورات یا برائی کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ آدمی کا اپنا فعل اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا ہے۔ کسی فعل کو پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ عمل معاشرہ پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے۔ اگر اس میں صدق نیت موجود ہے تو یہ عمل صحیح ہے۔

تصوف میں یہ مسئلہ متنازعہ رہا ہے کہ انسان کے اندر جب روحانی قوتیں متحرک اور کارفرما ہوتی ہیں تو کیسے سمجھا جائے کہ ان حالتوں میں حقیقت کی رنگینی ہے یا شیطان کی کارفرمائی۔ مذہب میں بھی اس مسئلہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ روحانی واردات و کیفیات حقیقت پر مبنی نہ ہوں تو اس بات کا گمان، یقین میں بدل جاتا ہے کہ شیطانی وسوسے، آدم ذات کو نچلے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔ جن لوگوں کے جسمانی تقاضے، روحانی کیفیات سے ہم رشتہ رہتے ہیں، ان کا طرز تکلم اور طرز تعلیم اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ بندہ جسم و جان کے رشتہ سے واقف ہے۔

روح اور جسم کے مشترک نظام میں جب حرکت پیدا ہوتی ہے تو بندہ خود کو خوشی اور ایثار کے جذبہ میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے۔ وہ نوع انسانی کے ہر فرد اور کائنات کے تمام افراد کو اس نظرسے دیکھتا ہے جس نظر سے ماں اپنے بچوں کو دیکھتی ہے۔

اس سرشت میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ میرا رشتہ کائنات کے تمام افراد سے قائم ہے۔ جس طرح کائنات میرے اندر بسی ہوئی ہے اسی طرح کائنات کا ہر فرد دل کے آئینہ پر اپنا عکس ڈال رہا ہے۔ فر دجب چاہے اپنے اندر اس عکس سے رابطہ کرسکتا ہے۔ شیطانی تفکر، ابلیسی طرز فکر اور برائی کے تشخص کو تشنج میں مبتلا کردیتی ہے۔ چہرہ پر ملاحت، صباحت اور معصومیت کی جگہ بدصورتی اور خشکی آجاتی ہے۔

ہر شخص پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک تجربات کی دستاویز ہے۔ دستاویز میں بھلائی سرایت کرگئی ہے تو دستاویز قیمتی اور فائدہ مند ہے۔ رگ و پے میں اگر برائی رچ بس گئی ہے تو دستاویز بھیانک اور بھونڈی ہے۔ بہترین دستاویز فرد کے لئے خود آگہی کا ذریعہ ہے اور بدترین دستاویز اس کے اندر بے حسی، خود غرضی اور لالچ پیدا کرتی ہے۔ اگر فرد سکون سے آشنا ہے تو وہ دوسروں کے لئے طمانیت قلب کا ذریعہ ہے۔ اس کا سایہ ٹھنڈا اور فرحت بخش  ہے، اس کی روحانی کیفیات حقیقی ہیں اور اگر وہ خود سکون سے دور ہے۔ اس کے اوپر غم کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ وہ خوف و ڈرکی خشک اور آب و گیاہ وادیوں میں غلطاں و پیچاں ہے تو یہ کیفیت شیطانی وسوسہ ہے اور اس کی ساری زندگی دھوکا ہے۔

زندگی کی اچھی دستاویز رکھنے والا بندہ اللہ سے قریبی تعلق رکھتا ہے اور قربت سے لطف اٹھاتا ہے۔ ہر سانس میں اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ اللہ کو اپنے اندر جلوہ گر دیکھتا ہے، جو اللہ کہتا ہے وہ سنتا ہے اور جو دعا کرتا ہے اللہ اسے قبول فرمالیتے ہیں۔ خالق کائنات سے ہم کلامی میں زندگی کے وہ راز منکشف ہوتے ہیں جو سب کو معلوم نہیں ہوتے۔ اس احساس کی بدولت وہ اپنی اصل کو پہچان لیتا ہے۔

وہ جان لیتا ہے  کہ اس کا جینا، مرنا اور ایک عالم سے دوسرے عالم میں زندگی گزارنے میں  کیا اسرار ہیں۔ ایسا بندہ ہر آن اور ہر لمحہ اللہ کی صفات کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ جسمانی طور پر وہ عام لوگوں کی طرح ہوتا ہے لیکن اس کا ضمیر اور قلب مطمئن ہوتا ہے ۔

بزرگوں نے یہ قاعدہ بنایا ہے کہ جس طرح ظاہری علوم سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت ہے اسی طرح روحانیت اور باطنی علوم کے  حصول کے لئے استاد (مرشد کامل) کی نگرانی اور سرپرستی لازم ہے۔ سالک دورانِ تربیت جب اپنی واردات کیفیات روحانی استاد کے گوش گزار کرتا ہے تو کامل استاد چونکہ خود اس شاہراہ سے گزر چکا ہے اور اس کے اندر نبوت کی فراست موجزن ہے، دیکھ لیتا ہے کہ سالک نے جس شے کا مشاہدہ کیا ہے یا جو محسوسات سالک پر مرتب ہوئے ہیں ان میں مثبت طرزِ فکر کا عمل دخل زیادہ ہے یا ابلیس کی کارستانی شامل ہے۔ اسی لئے ماورائی علوم کے طالب علموں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی واردات و کیفیات روحانی استاد کو ضرور بتائیں اور خود سے ان میں معانی نہ پہنائیں۔

 

دعاگو

عظیمی

مئی ۱۹۹۷ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔