Topics

جمیل احمد (ہالینڈ)

گرامی مرتبت، روشن ضمیر، اللہ کے دوست عظیمی صاحب

اسلام علیکم

میں طویل عرصہ سے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں۔ روشن ضمیری کے بارے میں دل آمادہ فکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ روشن ضمیری کیا چیز ہے؟۔۔۔۔ اس کے بارے میں  اس عاجز بندہ نے بہت کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ فاضل علماء نے بڑی بڑی  موشگافیاں فرمائی ہیں لیکن میں ناقص العقل ہوں۔ باوجودیہ کہ میں نے بہت گہرا مطالعہ کیا اور اپنے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہو کر مختلف سوالات کئے لیکن میں ناقص العقل بندہ اس بات کو سمجھ نہیں سکا اور ضمیر مطمئن نہیں ہوا۔

          مودبانہ التماس ہے کہ علوم روحانی سے اس کا حل عطا فرمائیں۔ ہمیشہ مشکور رہوں گا۔

      جمیل احمد (ہالینڈ) 

         

محترم جمیل احمد صاحب

          وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ

          ناقص العقل بندہ ہی سمجھ دار ہوتا ہے۔ حضرت فرید الدین رحمتہ اللہ فرماتے ہیں

                                      گرچہ  دانا  باشی  و  اہل  ہنر

                                      خویش را کمترز ہر ناداں شمر

          جو شخص سمجھتا ہے کہ میں دانا ہوں بینا،زیرک اور عقلمند ہوں وہ دراصل۔۔۔۔

          آدمی ، انسان یا روح کی ساخت پر بندہ جب ذہن مرکوز کرتا ہے تو ۔۔۔اندر میں۔۔۔ایک اُبال آجاتا ہے اور یہ اُبال بند ذہن کو کھول دیتا ہے۔ ایسے کھولتے ہوئے پانی پر دیگچی کا ڈھکن اوپر ہو جاتا ہے اور پانی پھیلنے کی صلاحیت بھاپ بن کر لا محدودسمتوں میں گُم ہو جاتی ہے۔ آدمی ، انسان اور روح کے الفاظ پر تفکر کیا جائے تو تین زاویوں سے بنی ہوئی ایک تصویر یا مکان ہے۔ اینٹ گارے سے بنا ہوا کمرا گھر ہے۔ کمرے کے محدودیت آدمی ہے۔ آدمی کے اندر ایک اور آدمی ” احسن تقویم“ ہے، وہ انسان ہے ۔ انسان امر ِ ربی ہے اور امرِ ربی روح ہے۔

          انسان  یا روح کی ساخت اس حقیقت میں منکشف ہوتی ہے

                   ۱۔ اول ”واجب“ ذات باری تعالیٰ ہے

                   ۲۔ واجب میں کائنات کا وجود اللہ کے ارادے کے تحت موجود تھا اور ہے۔

                   ۳۔ جب اللہ نے کائنات کا مظاہرہ پسند فرمایا تو حکم دیا ”کُن“ یعنی حرکت میں آ، چناچہ کائنات واجب میں جس طرح موجود تھی اس نے پہلی کروٹ بدلی اور حرکت شروع ہو گئی۔

          پہلی حرکت یہ تھی کہ موجودات کے ہر فرد کو اپنا ادراک ہوا۔ ہر فرد کی فکر میں یہ بات آئی کہ میں ہوں۔ یہ اندازِ فکر ایک گمشدگی اور محویت کا عالم تھا۔

مخلوق دریائے توحید کے اندر غوطہ زن تھی۔ صرف اتنا احساس تھا کہ میں ہوں کہاں ہوں اور کیا ہوں اور کس طرح ہوں۔۔۔ادراک نہیں تھا۔

          اللہ تعالیٰ روحوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:

          ” الست بربکم  “  میں ہوں تمہارا رب

          یہاں سے انسان یا امرِ ربی کی نگاہ وجود میں آجاتی ہے۔ امر ربی دیکھتا ہے کہ کسی نے مجھے مخاطب کیا ہے اور مخاطب پر اس کی نگاہ پڑتی ہے۔ وہ کہتا ہے

          ” بلی “ جی ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ میرے رب ہیں۔

          یہ ہے وہ مقام جہاں امر ربی نے دوسری حرکت کی یا دوسری کروٹ بدلی، اس مقام پر وہ کثرت سے متعارف ہوا۔ اس نے دیکھا میرے سوا اور بھی مخلوق ہے کیونکہ  مخلوق کے ہجوم کا شہود اسے حاصل ہو چکا تھا اور اسے دیکھنے والی نگاہ مل چکی تھی۔ مخلوق کو اپنا احساس اور دوسری مخلوق کی موجودگی کا شہود ہوا۔

          قانون: ادراک گہرا ہونے کے بعد نگاہ بن جاتا ہے ۔ ادراک جب ہلکا ہو اور خیال کی حدود تک موجود رہے اس وقت تک مشاہدہ کی حالت رونما نہیں ہوتی۔ احساس صرف فکر کی حد تک کام کرتا ہے۔ فکر جب ایک نقطہ پر چند لمحوں کے لئے مرکوز ہو جاتی ہے تو نقطہ میں خدوخال اور شکل و صورت کا مظاہرہ ہوتا ہے اس کو مشاہدہ یا شہود کہتے ہیں۔ ” فکر“ نگاہ کی حیثیت میں چند لمحے اور مرکوز رہتی ہے تو نقطہ گویا ہو جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں نگاہ جو نقطہ کا مشاہدہ کر رہی ہے گویا ہو جاتی ہے یا بولنے لگتی ہے۔

          یہ قوت گویائی جسے ”نطق“ کہتے ہیں اگر اس نقطہ کی طرف اور متوجہ رہے تو فکر اور احساس میں رنگینیوں کا چشمہ اُبل پڑتا ہے اور فکر نیرنگی کا ہجوم محسوس کرتی ہے۔ توجہ مزید مرکوز ہوتی ہے تو شہود انسانی میں کشش کی لہریں متحرک ہو جاتی ہیں۔ ان لہروں کی ایک صفت یہ ہے کہ اپنے شہود کو جسے وہ دیکھ رہی ہیں یا محسوس کر رہی ہیں ، چھو لیتی ہیں۔

          انکشاف ہوتا ہے کہ علم ہی کی جداگانہ حرکات یا حالتوں کا نام خیال ، گفتار، شامہ اور لمس ہے۔ جس طرح خیال علم ہے، اسی طرح نگاہ بھی علم ہے اور نگاہ کے بعد تمام حالتیں بھی علم ہیں۔ کوئی حالت ان حدود سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی اور علم کی حدود کے اندر ہی درجہ بدرجہ گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہماری فکر اوپر سے نیچے کی طرف سیڑھیاں اترتی ہے اور ہم فکر  کی شکل و صورت کو مختلف احساسات کا نام دیتے چلے جاتے ہیں۔

                  

خیال کو شدت سے محسوس کیاجاتا ہے تو شکل و صورت نظر آتی ہے اور شکل

و صورت مزید غور و فکر کے اثر سے گفتگو کرنے لگتی ہے۔ اور اضافہ ہوتا ہے تو

یہ گفتگو رنگا رنگ لباسوں میں جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ آخری مرحلہ میں ہم ان

رنگا رنگ لباسوں کی طرف خود کو کھنچتا ہوا محسوس کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہماری

حس ان رنگا رنگ لباسوں کو چھو لیتی ہے۔ یہاں پر ہمارا تجسس ختم ہو جاتا ہے، یہ

کیفیت فکر انسانی کے لئے لذت کی انتہا ہے۔

          اس آخری نکتہ پر پھر فکر انسانی کو لوٹنا پڑتا ہے۔ جس چیز کو ابھی ہم نے چھوا تھا ہماری حس سے دور ہونے لگتی ہے۔ یہ حالت ہماری حس کا ردِ عمل ہے جو مکانیت اور زمانیت کے فعل کا احساس دلاتی ہے۔ مکانیت شعور اور زمانیت لاشعور ہے۔

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی

                                                                                      ۲۷ جون  ۱۹۹۹ء

                                                                                      مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔