Topics

(جیکب آباد (ممتاز علی

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

عام حالات میں نگاہ ذہن کی سطح پر جو شبیہیں بناتی ہے اور جن چیزوں کی یہ شبیہیں ہوتی ہیں ان چیزوں کے اندر گہرائی کا ہونا بہت ضروری ہے چاہے وہ مثبت مقداریں ہوں یا منفی مقداریں۔

خواب میں جتنی شبیہیں ہمارے ذہن کی سطح پر بنتی ہیں وہاں گہرائی کی مقداریں منفی ہوتی ہیں۔ ان مقداروں کے زیراثر خواب دیکھنے والا تو ان شبیہوں یا شکلوں کو جو اس کی ذہنی سطح پر بنتی ہیں، دیکھ سکتا ہے لیکن دوسرے حضرات جو ارد گرد موجود ہوں، دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ وہ بیداری کی حالت میں ہیں اور بیداری میں مثبت مقداریں ہونا ضروری ہیں چاہے وہ کم سے کم ہوں۔ البتہ دونوں صورتوں میں خواہ مقداریں منفی ہوں یا مثبت پس منظر میں کچھ نہ کچھ چیزیں ضرور ہوتی ہیں اور ان چیزوں کی نشریات ہمارے ذہن پر شبیہیں بناتی ہیں۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ مثبت مقداریں منفی میں اور منفی مقداریں مثبت میں ردوبدل کرتی رہتی ہیں۔ منفی مقداروں کی تعریف یہ ہے کہ وہ زمان و مکان کی ان حدود سے جو ہماری معین کردہ ہیں آزاد ہوتی ہیں۔

کائنات میں جو اصل اصول کارفرما ہے ان کا قرآن پاک

میں معاد کے نام سے تذکرہ کیا گیا ہے۔

معاد قدرت کی سنت ہے۔

مثال: ایک آدمی جو ہم سے دور پرے کسی دیوار کے پیچھے کھڑا بلند آواز سے باتیں کررہا ہے۔ اس کی آواز ہمارے ذہن کی سطح پر باتیں کرنے والے کی شخصیت کی شبیہہ بنادیتی ہے۔ اگر ہم اس شخصیت کا نام جانتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فلاں شخص باتیں کررہا ہے۔

اور زیادہ واضح طریقے پر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی کی آواز ریکارڈ کرلی جائے تو ہم اس ریکارڈ کے ذریعہ ایک جگہ سے ہزاروں میل دور جاکر مہینوں اورسالوں گزرنے کے بعد بھی اس آواز کو سن سکتے ہیں۔ یہ آواز ہمارے ذہن کی سطح پر اس شخصیت کی شبیہہ بنادیتی ہے۔ اگر شخصیت کا نام معلوم ہے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کی آواز ہے۔

کہنا یہ ہے کہ کسی شخصیت یا کسی چیز کو پہچاننے کا ذریعہ دراصل اس شخص یا شے کی شبیہہ ہوتی ہے خواہ منفی مقداروں میں ہو یا مثبت مقداروں میں۔ اب یہ ثابت ہوگیا کہ منفی مقداریں بھی وہی طاقت رکھتی ہیں جو مثبت مقداریں رکھتی ہیں اور ساتھ ہی منفی مقداریں …… مثبت مقداروں کی طرح زمان و مکان کی پابند نہیں ہیں۔

لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ ہر عمل کرنے والی شخصیت

موجود ہے، رہتی ہے اور ابد تک موجود رہے گی۔ اس کو ابدیت

حاصل ہے اور کوئی شخصیت قدرت کے اس اصل

اصول سے کبھی چھٹکارا نہیں پاسکتی۔

یہ امر واضح ہے کہ منفی مقداریں زماں و مکان کی گرفت سے بالکل آزاد ہوتی ہیں تاہم منفی اور مثبت میں یہ حقیقت مشترک ہے کہ دونوں کی بنائی ہوئی شبیہوں میں شخصیت موجود رہتی ہے۔

 

دعاگو

عظیمی

۹، جون، ۱۹۶۹ء

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔