Topics

ڈاکٹر مظفر الدین (کراچی)

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

          میرے دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ ” زندگی کے مقام اور حالات کہاں چلے جاتے ہیں؟۔۔۔“ میں نے انھیں لکھ دیا ہے کہ مجھ میں اتنی قابلیت نہیں جو اس موضوع پر کچھ کہہ سکوں البتہ قبلہ خواجہ عظیمی صاحب کی خدمت میں عرض کر سکتا ہوں جیسا جواب آئے گا تحریر کر دوں گا۔

          یہاں تھوڑا عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اگر اس کا جواب یہ دیا جائے کہ ”وقت کی بساط پر“ تو وقت خود انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں اور اشاعت میں شامل فرمائیں تا کہ لوگ بھی مستفید ہو سکیں۔

ڈاکٹر مظفر الدین (کراچی)

         

وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ

          جب ہم صحائفِ انبیاء اور الہامی و آسمانی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ان لاریب  کتابوں کا اصل موضوع حیات اور زندگی ہے۔۔زندگی کیا ہے؟۔۔۔ اس کی ابتدا اور اس کا ظہور کس طرح ہوتا ہے۔۔۔اور یہ معدوم ہو کر کس طرح اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔۔لیکن صدافسوس کہ مذاہب کے کچھ پیرو کاروں نے ان الہامی کتابوں کے اصل مقصد ”روحانیت“ کے حصول کے بجائے ان تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے کہ عام لوگوں کا ان تعلیمات کی حقیقت تک پہنچنا ایک مسئلہ بن گیا ہے مثلاً مذہب کے کچھ پیروکاروں نے پیدائش اور موت کے بعد کی زندگی کو آواگون کا مسئلہ بنا دیا ہے یا کچھ مذہبی دانشوروں نے انہی الہامی کتابوں کے حوالے  سے اللہ کی الرّحمٰن الرحیم ذات کو ڈر و خوف ، سزا اور عذاب کی علامت بنا دیا۔

          انہی ناقص اور محدود سوچ کے حامل لوگوں کی وجہ سے اللہ کی مخلوق، ایک اللہ اور رسولوں کی ایک ہی تعلیمات پر جمع اور متحد ہونے کی بجائے مختلف مذاہب ، فرقوں اور گرہوں میں بنتی چلی گئی لیکن ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب اقوام عالم کسی ایک نقطہ پر متحد ہونے پر مجبور ہونگی اور وہ نقطہ ”قرآنی و حدت“ ثابت ہوگا۔

          اب آیئے اصل بات کی طرف بڑھتے ہیں بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ پیدا ہونے کے بعد جن حالات میں زندگی گزرتی ہے وہ کہاں چلے جاتے ہیں؟۔۔۔اور اگر یہ کہا جائے کہ حالات اور اعمال و حرکات وقت کی بساط پر رواں دواں ہیں تو وقت کی کیا حیثیت ہے۔۔۔ آسمانی کتابوں اور اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم کے نکتہ نظر سے اللہ تعالیٰ نے وقت حالات اور زندگی کے لئے دو رُخ متعین کئے ہیں ایک رُخ اعلیٰ اور دوسرا رُخ اسفل ہے۔

          ہم جب اعلیٰ اور اسفل میں تفکر کرتے ہیں تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اعلیٰ اور اسفل۔۔۔دونوں رُخوں میں عمل کی حیثیت ایک ہی ہے صرف نیت سے کسی عمل یا کردار کو اعلیٰ اور اسفل قرار دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اعلیٰ اور اسفل دونوں زندگیوں کو ”کتاب المرقوم“ یعنی نوشتہ کتاب کہا گیا ہے۔

                   ترجمہ : آپ کیا سمجھے علیین (اعلیٰ زندگی) سجین (اسفل زندگی) کیا ہے، لکھی ہوئی

                   کتاب ہے۔القرآن

          موجودہ دور کے سائنسی علوم کی روشنی میں اسے ”فلم“ کا نام دیں تو مسئلہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتا ہے۔ آسمانی کتابوں کے ساتھ ساتھ جو باتیں پیغمبروں نے وضاحت سے بیان کی ہیں ان سے بھی مسئلہ اور واضح ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ، ”زمانے کو بُرا نہ کہو زمانہ اللہ ہے۔“

          مختصر تمہید کے بعد اس بات کو عام فہم زبان میں اس طرح کہا جائے گا کہ زندگی ، حیات قبل از زندگی اور بعد از موت سب مقام اور حالات نوشتہ کتاب یا ایک فلم ہے۔

          بات کچھ یوں بنی کہ کائنات میں جو کچھ ہو چکا ہے جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کا سب لوح محفوظ پر نقش ہے۔ ان نقوش (File) کو جب اللہ تعالیٰ کی تجلی فیڈ (Feed) کرتی ہے تو یہ نقوش مختلف اسکرین پر متحرک ہو جاتے ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ لوح محفوظ پر زمان و مکان کی یہ کیفیت نہیں ہے جو کیفیت ارض کی اسکرین (Earth Or Screen) پر ہے۔

 

                   لوح محفوظ کے قانون کے مطابق لوح محفوظ سے نزول کرنے والے برزخ سے گزرکر ارض پر متحرک ہوتے ہیں۔

          ارض یا زمین پر قابل تذکرہ مخلوق انسان ہے۔روحانی نقطہ نظر سے جب ہم انسانی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں تین بساط (Screens) نظر آتی ہیں۔

                   ۱۔پہلی بساط پر واہمہ اور خیالات کا نزول ہوتا ہے۔

                   ۲۔دوسری بساط پر تصورات اور احساسات کے نقوش بنتے ہیں۔

                   ۳۔تیسری بساط پر مظاہرات خدوخال کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس طرح ان نقوش کا اظہار ہوتا ہے۔

          اسی طرح یہ نقوش دوبارہ ان تین بساط سے گزر کر غیب کے پردے میں چھپ جاتے ہیں۔ یعنی زندگی کے مقام اور حالات ، پیدائش اور موت سب ایک فلم (لوحِ محفوظ) ہے جو مسلسل اور متواتر چل رہی ہے۔

          جن صاحب دل لوگوں کو روحانی نقطہ عروج نصیب ہو جاتا ہے وہ اس بات کو مشاہداتی طور پر دیکھ لیتے ہیں کہ

                                      انا للہ و انا الیہ راجعون

          یعنی ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی

                                                                                      نومبر  ۲۰۱۳  ء

                                                                                      ماہنامہ قلندر شعور،کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔